مشرقی افریقہ میں واقع کینیا میں ایک ایسا گاؤں موجود ہے، جہاں صرف عورتیں رہتی ہیں اور یہاں مردوں کے آنے جانے پر پابندی ہے۔
کینیا کے خطے سمبورو کے ایک گاؤں اوموجا میں 47 عورتیں اور لگ بھگ 200 بچے زندگی گزار رہے ہیں، اس گاؤں میں کوئی مرد نہیں رہتا ہے اور نا ہی یہاں مردوں کو آنے کی اجازت ہے۔ یہ مکمل طور پر عورتوں کی کمیونٹی ہے جسے ظلم کی ستائی ہوئی عورتوں کی پناہ گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔
روزنامہ گارڈین میں شائع شدہ خبر کے مطابق اوموجا گاؤں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ اس بستی میں رہنے والی عورتوں نے جنسی زیادتی، عصمت دری، شوہر کی بدسلوکی اور ناکام شادیوں کے بعد اپنے گھروں سے بھاگ کر یہاں پناہ حاصل کی ہے۔
بنیادی طور پر عورتوں کے گاؤں کا قیام 1990ء میں ہوا، جب یہاں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں درجنوں عورتوں کی عصمت دری کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کمیونٹی کی رہنما ربیکا لولوسولی ہیں جنھیں ان کے شوہر نے بدسلوکی کے بعد گھر سے نکال دیا تھا۔ ربیکا نے یہاں قدامت پسند معاشرے کی طرف سے ٹھکرائی ہوئی عورتوں کو گروپ کی شکل میں اکھٹا کیا ہے، جنھیں خاندان، شوہر یا کمیونٹی کی طرف سے نکال دیا گیا تھا۔
کینیا میں حقوق نسواں کی علمبردار ربیکا کو عورتوں کے حقوق کے لیے بات کرنے اور علیحدہ کمیونٹی بنانے پر سزا بھی دی گئی اور پچھلے پچیس سالوں میں ان پر لگاتار حملے بھی ہوئے، لیکن ربیکا پورے عزم کے ساتھ اپنے مقصد پر ڈٹی رہیں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اوموجا میں رہنے والی عورتیں اپنا گھر خود چلاتی ہیں، کمیونٹی کی عورتیں مل کر دستکاری کا سامان اور زیورات تیار کرتی ہیں اور انھیں سیاحوں کو بیچتی ہیں، اس طرح پورے گاؤں کے لیے کھانے کپڑے اور گھر کا انتظام کیا جاتا ہے۔
اس گاؤں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کی عورتیں آس پاس کے دیہاتوں میں جا کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی کام کر رہی ہیں خاص طور پر اپنی کمیونٹی اور دیگر کمیونٹیوں کی لڑکیوں سے کم عمری کی شادی، جبری شادی اور نسوانی ختنہ کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں۔
انیس سالہ جوڈیا نے بتایا کہ اس کی عمر 13 سال تھی جب وہ یہاں آئی تھی، اس کے گھر والے اسے ایک بڑی عمر کے آدمی کے ہاتھ بیچ رہے تھے۔ جوڈیا کہتی ہے کہ یہاں میری ہر صبح مسکراہٹ کے ساتھ ہوتی ہے، یہاں میرے آس پاس سب دوست اور ہمدرد ہیں۔
جین کہتی ہے کہ جس روز اس کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا وہ اپنے شوہر کے جانوروں کو چرانے گئی تھی، میں نے یہ بات اپنے شوہر سے چھپائی تھی لیکن ساس کو بتایا تھا، جس پر گھر والوں نے مجھے بدکردار سمجھ کر مجھ سے منہ موڑ لیا اور خاوند نے بد سلوکی کی انتہا کر دی پھر میں ایک روز وہ اوموجا بھاگ آئی۔
ایک اور 34 سالہ خاتون نے بتایا کہ اس کی شادی 80 سال کے آدمی سے ہوئی تھی، جب اس کی عمر 16 سال تھی وہ اپنے گھر سے بھاگ آئی تھی اور اب اس کمیونٹی کو چھوڑ کر کہیں اور جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہے۔
اس بستی کی بہت سی عورتوں نے کہا کہ وہ اوموجا میں رہنے کے بعد کسی مرد سے شادی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہیں۔
تاہم جب ایک عورت سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی مردوں کو پسند کرتی ہے تو اس کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی مردوں کو پسند کرتے ہیں، انھیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ایک عورت کی زندگی بچوں کے بغیر خالی ہے۔
لوٹی کوئی نامی ایک واحد آدمی ہے، جسے گاؤں میں آنے جانے کی اجازت ہے، وہ ہر روز طلوع آفتاب سے پہلے یہاں آتا ہے اور عورتوں کے مویشیوں کو چرانے کے لیے باہر لے کر جاتا ہے کیونکہ یہاں گھر میں کھانا پکانا، بچوں کی پرورش اور لکڑیاں لانے کا کام عورتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ جانوروں کی دیکھ بھال کا کام مرد کرتے ہیں۔
2003ء میں اوموجا کی عورتوں کے ایک گروپ نے برطانوی وکلاء کے ساتھ ملاقات کی تھی جو وہاں مقامی لوگوں کی شکایات کے حوالے سے کام کر رہے تھے، اس وقت عورتوں کی جانب سے 30 سالوں میں گرکھاس اور برطانوی فوجیوں کے طرف سے اجتماعی زیادتی اور حملوں کے واقعات کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔