|
ویب ڈیسک۔۔ بنگلہ دیش میں عوامی بغاوت نے وزیراعظم شیح حسینہ کو اپنی جان بچانے کے لیے بھارت فرار ہونے پر مجبور کر دیا جس کے بعد شروع ہونے والے تشدد کی زد میں ہندو اقلیت کے گھر، کاروبار اور عبادت گاہیں بھی آئیں جس سے ان میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ہجوموں کے تشدد سے بچنے کے لیے کئی ہندوؤں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر روپوش ہونا پڑا۔ ان میں کھلنا کے ایک 65 سالہ ریٹائرڈ آڈیٹر اروبندہ موہلدر بھی شامل تھے، جو سیاسی جماعت عوامی لیگ کے لیے کام کرتے تھے۔
موہلدر کہتے ہیں کہ میں اور میری اہلیہ ضروری سامان لے کر اپنے ایک رشتے دار کے ہاں چھپ گئے۔ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ مشتعل بلوائیوں نے ان کے گھر کو لوٹ مار کرنے کے بعد نذر آتش کر دیا۔
شیخ حسینہ کے بھارت فرار ہو جانے کے بعد سے ان کے حامیوں اور ساتھیوں کو ہجوموں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ہندو بھی شامل ہیں جو روایتی طور پر عوامی لیگ کے حامی ہیں۔
بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی ایک تنظیم بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونیٹی کونسل کا کہنا ہے کہ 5 اگست کو حسینہ کے فرار کے بعد سے ملک کے 52 اضلاع میں ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف کم از کم 200 حملے ہو چکے ہیں۔
تشدد کے محرکات کا تعین بہت مشکل ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ 17 کروڑ آبادی کے اس ملک میں تشدد کی شدت اور محرکات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔
کرائسز گروپ کے بنگلہ دیش اور میانمار امور پر ایک سینئر کنسلٹنٹ تھامس کین کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں اقلیت بھی ایک عنصر ہو لیکن بہت سے ہندوؤں کے عوامی لیگ سے روابط تھے کیونکہ تاریخی طور پر اس جماعت نے اقلیتوں کا تحفظ کیا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ انہیں اپنی سیاسی وابستگی کی بنا پر ہدف بنایا گیا ہو۔
کین کا مزید کہنا تھا کہ حسینہ کے فرار کے بعد ملک بھر میں ہجوم بے قابو ہو کر نکل پڑے۔ تشدد کے بعض واقعات کا محور صرف مجرمانہ تھا۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ سب نسل یا مذہب کی وجہ سے تھا۔
بنگلہ دیش میں قائم ہونے والی عبوری حکومت نے ان حملوں کو گھناونا قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کمیونٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونیٹی کونسل کی نائب صدر کاجل دیبناتھ کا کہنا تھا کہ ہندو ملک کی کل آبادی کا 8 فی صد اور سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور وہ یہ تصدیق کیے بغیر دروازہ نہیں کھلتے کہ دستک دینے والا کون ہے۔ دارلحکومت ڈھاکہ سے لے کر بستیوں تک ہندو اقلیت بہت خوف زدہ ہے۔
ہندوؤں نے گزشتہ ہفتے کے دوران بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور حالیہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے تحفظ کا مطالبہ کیا۔
ڈھاکہ میں ایک ہندو گھریلو خاتون منی گھوش نے بتایا کہ حسینہ کے فرار ہو جانے کے بعد حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہماری حمایت کرتی تھیں۔
اقلیتی گروپوں کی تنظیم کے مطابق ان حملوں میں ہندوؤں کے گھروں اور کاروباری اداروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور انہیں لوٹا گیا۔ کچھ مندروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں گئیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے خلاف بہت سے حملوں کا سبب سیاسی تھا اور وہ شیخ حسینہ کی پارٹی کے خلاف برہمی کا اظہار تھا۔
ڈھاکہ میں قائم سینٹر فار گورننس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظل الرحمان کہتے ہیں کہ اس افراتفری میں ہندوؤں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، لیکن زیادہ تر حملوں کا محرک سیاسی تھا اور ان حملوں کا نشانہ عوامی لیگ تھی۔
موہلدر کا خیال ہے کہ انہیں عوامی لیگ سے تعلق کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اب اپنے گھر واپس جانے سے خوف زدہ ہیں۔
یہ معاملہ بھارت کے لیے حساس بنتا جا رہا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی حملوں کی اطلاعات پر اپنی تشویش کر چکے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے خلاف تشدد کے بارے میں مستند معلومات اور سرکاری تحقیقات کی کمی کی وجہ سے بھی حملوں کی غلط معلومات کے پھیلاؤ میں مدد ملی ہے ۔ کین کہتے ہیں کہ غیر مستند اور غلط معلومات میں زیادہ تر حصہ بھارتی خبروں، سوشل میڈیا اور وہاں کے لیڈروں نے ڈالا ہے۔
SEE ALSO: شیخ حسینہ سمیت سات سابق اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف قتل کی عدالتی تحقیقات کا آغازشیخ حسینہ کے بھارت فرار ہونے کے دن، 5 اگست کو بھارتی ریاست مغربی بنگال میں مودی کی پارٹی کے ایک رہنما نے کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کیا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز نے اس دعویٰ کے ساتھ یہ خبریں پھیلائیں کہ ہندوؤں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ایک اور واقعہ میں ایک بھارتی میڈیا نے ایک مندر کو نذر آتش کرنے کی خبر دی۔ لیکن بنگلہ دیش نے ایک بنگلہ زبان کے اخبار ’پروتھم الو‘ نے اسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ آتش زدگی کا واقعہ مندر کے پیچھے واقع عوامی لیگ کے ایک دفتر میں ہوا تھا۔
گزشتہ ہفتے عبوری حکومت میں وزیر کے طور پر حلف اٹھانے والے طالب علم لیڈر ناہد اسلام نے کہا ہے کہ تشدد کے واقعات کا تعلق مذہب سے نہیں ہے ۔ ان کا محرک سیاسی تھا اور قوم کو تقسیم کرنا تھا۔ بنگلہ دیش اقلیتوں کی حفاظت کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے عوام اور حکومت اقلیتوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
بنگلہ دیش میں اب حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ پولیس اہل کار اپنی ہڑتال ختم کر کے واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی پولیس اسٹیشن کھل گئے ہیں۔ جہاں پولیس موجود نہیں ہے وہاں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے طالب علم رضاکار گشت کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)