امریکہ کی بائیو ٹیک اسٹارٹ اپ کمپنی ’تھیرانوس‘ کی بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر الزبتھ ہومز پر مقدمے کی کارروائی جنوری میں ختم ہونے کے بعد منگل سے کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر پاکستانی نژاد رمیش بلوانی کے خلاف مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہو رہا ہے۔
رمیش بلوانی عرف سنی کا ٹرائل 18 رکنی جیوری کے سامنے ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں عدالتی کارروائی 13 ہفتے تک لگاتار جاری رہے گی۔ رمیش بلوانی نے اپنے اوپر لگائے گئے 12 الزامات پر صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔
یہ کہانی ہے ایک امریکی بائیو ٹیک اسٹارٹ اپ کمپنی کے عروج و زوال کی۔ یہ قصہ امریکہ کی سلیکون ویلی کے سب سے بڑے فراڈ کا ہے۔ یہ داستان ہے 'تھیرانوس' کی اور اس داستان کے مرکزی کردار ہیں تھیرانوس کی بانی الزبتھ ہومز اور ان کے نائب، چیف آپریٹنگ آفیسر رمیش بلوانی۔
بلوانی عمر میں ہومز سے 19 برس بڑے ہیں اور پیشہ ورانہ تعلقات کےعلاوہ دونوں میں محبت کا رشتہ بھی تھا جسے برسوں خفیہ رکھا گیا۔
جنوری 2022 میں مکمل ہونے والے مقدمے میں تھیرانوس کمپنی کی 38 سالہ بانی الزبتھ ہومز پر فراڈ کے 12 میں سے چار الزامات پر جرم ثابت ہوا ہے۔ انہیں باقاعدہ سزا ستمبر 2022 میں سنائی جائے گی۔
تھیرانوس کیا ہے؟
تھیرانوس کیا ہے کے بجائے کیا تھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ ستمبر 2018 میں یہ کمپنی ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی تھی۔
تھیرانوس ایک ایسا اسٹارٹ اپ تھا جس کی آمد نے ہیلتھ سائنسز کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔
اس کمپنی نے ایڈیسن نام کی ایک چھوٹی سی مشین تیار کی جو ہیلتھ کیئر کی دنیا میں مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے حاصل کرنے کے طریقے کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے والی تھی۔
کمپنی کا دعویٰٰ تھا کہ کہ ایڈیسن نام کی یہ مشین محض چند قطرے خون سے 200 سے زائد مختلف اقسام کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان میں کئی ایسے ٹیسٹس بھی شامل تھے جو بیماریوں کے لاحق ہونے سے قبل ہی ان کی تشخیص میں مدد دیتے۔
یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی کی پیش گوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا تھیرانوس کی آمد سے امریکہ میں 60 ارب ڈالرز کی روایتی لیب ٹیسٹنگ صنعت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مگر حقیقت میں ایڈیسن نامی مشین چند ہی ٹیسٹس کرنے کے قابل تھی اور ان ٹیسٹس کے نتائج بھی حتمی نہیں کہے جا سکتے تھے۔
وفاقی تحقیقات کے دوران کمپنی کے سابقہ ملازمین کا کہنا تھا کہ الزبتھ اور رمیش عرف سنی دونوں جانتے تھے کہ کمپنی کے پاس وہ صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی نہیں جس کا وہ دعویٰٰ کر رہے تھے۔ ملازمین کے مطابق سرمایہ کاروں اور’ وال گرینز‘ فارمیسی جیسے قد آور کلائنٹس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بہت سے ٹیسٹس دیگر کمپنیوں کی مشینز پر کیے جاتے تھے اور ان کے نتائج کو ایڈیسن سے حاصل کیے گیے نتائج کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
اکتوبر 2015 میں 'وال اسٹریٹ جرنل' میں چھپنے والی تحقیقاتی رپورٹس میں کمپنی کی ان بے ضابطگیوں اور غلط بیانیوں پر سوال اٹھائے گئے جسے الزبتھ ہومز نے بڑے اعتماد کے ساتھ میڈیا پر یکسر مسترد کر دیا تھا۔
یاد رہے 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مالک میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوخ ہیں جو الزبتھ ہومز کی تھیرانوس میں بذات خود ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کر چکے تھے۔
اپنے زوال سے پہلے تھیرانوس کمپنی کی مالیت کا تخمینہ نو ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔
سال 2014 میں ’فوربز میگزین‘ نے الزبتھ ہومز کی نیٹ ورتھ یا اثاثوں کی کل مالیت ساڑھے چار ارب ڈالرز بتائی اور 30 سالہ الزبتھ ہومز کو ’اپنے بل بوتے پر ارب پتی بننے والی سب سے کم عمر خاتون‘ قرار دیا۔
الزبتھ ہومز: تھیرانوس کا مرکزی کردار
سلیکون ویلی میں بڑی تعداد میں نوجوان اپنے اسٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ کار تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو مہینوں اور سالوں کی کوشش کے بعد بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
ایسے میں الزبتھ ہومز میں ایسا کیا تھا جس سے بڑے سرمایہ کار ہوں، ملک کے صدر ہوں یا پھر نائب صدر سب ہی مرعوب ہو جاتے تھے؟
اس کے لیے الزبتھ ہومز کی شخصیت جاننا ضروری ہے۔
الزبتھ ہومز 1984 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے والدین سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے ایک پڑوسی نے نیوز چینل 'اے بی سی' کی ایک پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ الزبتھ کے والد کرسچیئن ہومز اور والدہ نوئل ہومز دونوں کو اپنے مضبوط خاندانی پس منظر پر بڑا فخر تھا اور وہ اکثر اپنے آباؤ اجداد کی کامیابیوں کا ذکر کرتے تھے۔
کوئی بعید نہیں کہ ایسے ماحول میں پلنے والا بچہ جہاں شخصیتی کامیابی کو فخر و ناز کا باعث سمجھا جاتا ہو اور اس کے قصے دوسروں کو مثال کے طور پر سنائے جاتے ہوں، ایسے ہی خواب آنکھوں میں لے کر پروان چڑھے۔
جریدے ’دا نیویارکر‘ کو دیے گیے ایک انٹرویو میں خود الزبتھ ہومز کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے گھر میں پلی بڑھیں جہاں کچھ بڑا کرنے پر زور دیا جاتا تھا، جہاں یہ بتایا جاتا تھا کہ زندگی کو بے مقصد طور پر گزارنے کا فیصلہ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور وہ مستقبل میں کیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔
الزبتھ ہومز یقیناً اچھی طالبِ علم رہی ہوں گی تب ہی امریکہ کی معتبر ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک اسٹینفورڈ میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
امریکی نیوز ادارے ’انسائیڈر‘ نے ہومز کے رشتہ داروں کے حوالے سے تحریر کیا کہ نو سال کی عمر میں جب الزبتھ سے پوچھا گیا کہ وہ کیا بننا چاہتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ارب پتی بننا چاہتی ہیں۔
انہی رشتہ داروں کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ وہ بچپن میں اپنے خاندان کے بچوں کے ساتھ بورڈ گیم منوپلی اس وقت تک کھیلتی رہتی تھیں جب تک وہ گیم کی ساری جائیدادیں حاصل نہ کر لیتیں۔ جب انہیں لگتا آج قسمت ساتھ نہیں دے رہی تو وہ گیم چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔
سن 2015 میں کی گئی ایک ٹوئٹ میں الزبتھ نے خود لکھا کہ کوئی ایسا خواب نہیں جو آپ نہ پا سکیں، کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو کہہ سکے کہ آپ ایسا نہیں کر پائیں گے۔
ان معلومات سے الزبتھ ہومز کی شخصیت کے بارے میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی نظر آسمان کی اونچائیوں پر تھی اور اپنی منزل پانے کے راستے میں وہ کوئی رکاوٹ قبول نہ کرتیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسٹینفورڈ میں تعلیم شروع کرنے سے پہلے وہ موسمِ گرما کی چھٹیوں میں مینڈرن زبان سیکھنے چین گئیں اور وہیں ان کی ملاقات رمیش بلوانی سے ہوئی جو اسٹینفورڈ ہی میں کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری حاصل کر رہے تھے۔
رمیش بلوانی، تھیرانوس کا دوسرا اہم کردار
الزبتھ ہومز کے نمبر دو کہلانے والے رمیش بلوانی، جنہیں سنی کے نام سے پکارا جاتا ہے، برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کے مطابق پاکستان کے صوبے سندھ میں ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔
رمیش بلوانی 1986 میں امریکہ چلے گئے تھے جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ آسٹن سے انفارمیشن سسٹمز میں کالج ڈگری حاصل کی۔ ’گارڈیئن‘ اخبار کے مطابق ان کا خاندان بعد میں پاکستان سے بھارت ہجرت کر گیا تھا جس کے بعد وہ بھی امریکہ منتقل ہو گئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سن 2002 میں چین میں ملاقات کے بعد 18 سالہ الزبتھ ہومز اور 37 سالہ رمیش بلوانی میں مبینہ طور پر محبت کا رشتہ قائم ہوا۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں بے نقاب ہوئی تھیرانوس کی کہانی میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہومز اور بلوانی دونوں نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بلکہ رہتے بھی ساتھ ہی تھے۔ دونوں نے خود عدالت میں اس رشتے کا اعتراف کیا اور اس کا بھی کہ یہ بات انہوں نے سرمایہ کاروں سے خفیہ رکھی۔
نشریاتی ادارے ’اے بی سی نیوز‘ کے پوڈکاسٹ The Dropouts کی جانب سے عدالت سے حاصل کیے گئے رمیش بلوانی کے بیان کے مطابق بلوانی نے عدالت کو بتایا کہ جب تھیرانوس کو پیسوں کی کمی کا سامنا تھا اور چوں کہ وہ کمپنی کی صلاحیتوں پر یقین رکھتے تھے اس لیے انہوں نے کمپنی کو ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالرز دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ قدم خلوص اور نیک نیتی پر مبنی تھا۔
رمیش انٹرنیٹ اور ڈاٹ کام کے عروج کے زمانے میں اپنے کمپنی حصص فروخت کرکے چار کروڑ ڈالرز کما چکے تھے اور جس وقت ان کے اور الزبتھ ہومز کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہوا وہ مضبوط مالی حیثیت کے مالک تھے۔
آگے جا کر یہی رمیش بلوانی 2009 میں تھیرانوس کے چیف آپریٹنگ آفیسر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔
رمیش بلوانی یا سنی بلوانی کے نام کو اگر آپ انٹرنیٹ پر تلاش کریں تو تھیرانوس کے عروج و زوال کی کہانی، فراڈ اور عدالتی کیس کے علاوہ ان کی کوئی معلومات نہیں ملیں گی۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے صحافی جان کیریرو جنہوں نے تھیرانوس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تھا، کا کہنا ہے کہ سنی بلوانی نے ممکنہ طور پر اپنا تمام ڈیجیٹل ریکارڈ تلف کرا دیا تھا کیوں کہ جو شخص خود سافٹ ویئر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نام اور پیسہ دونوں بنا چکا ہو، ممکن نہیں کہ اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر کچھ بھی نہ ملے۔
جان کیریرو کے مطابق کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین نے انہیں بتایا کہ الزبتھ اگر کمپنی کی بانی تھیں تو ان کے طریقۂ کار کو لاگو کرنے والی شخصیت رمیش بلوانی کی ہی تھی۔ ملازمین کے مطابق بلوانی نے کمپنی میں خوف کی ایک فضا قائم کی ہوئی تھی۔ وہ ملازمین کے کام کے اوقاتِ کار نوٹ کرتے اور وڈیو کیمروں سے ان پر نظر رکھتے۔
ایک بار وہ ایک ملازم کی یہ سرزنش کرتے ہوئے پائے گئے کہ اس نے محض آٹھ گھنٹے کیوں کام کیا اور یہ کہ وہ انہیں "ٹھیک" کر دیں گے۔ ملازم نوکری چھوڑ کر دروازے کی طرف بڑھا تو رمیش نے اس پر پولیس بلوا لی۔
ملازمین کے مطابق رمیش بلوانی بد زبان اور گرم مزاج شخصیت کے مالک تھے۔
تھیرانوس کیسے سرمایہ کاروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوئی؟
سیلیکون ویلی میں Creative Chaos اسٹارٹ اپس اور فورچیون 500 کمپنیوں کو کاروباری حکمت عملی اور پراڈکٹ ڈویلپمنٹ میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بانی شاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دو اہم وجوہات بتاتے ہیں جن کی بنا پر تھیرانوس تیزی سے اپنی جگہ بنا پائی۔
شاکر حسین کہتے ہیں کہ امریکہ میں سرمایہ کار کم شرح منافع کی وجہ سے بینکوں کو ترجیح نہیں دیتے۔ ان کے لیے کاروباری ریس کے ایک ایسے گھوڑے پر رقم لگانا زیادہ فائدہ مند ہے جو چند برس بعد ان کی رقم کو کئی گنا کردے۔ اس لیے یہاں سرمایہ کار اسٹارٹ اپس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
شاکر حسین کے مطابق سلیکون ویلی ہمیشہ سے سرمایہ کاروں کے لیے کشش کا باعث رہی ہے مگر سرمایہ کار عموماً بغیر تحقیق اور اپنے مشیروں کی صلاح کے ایسے اقدامات نہیں اٹھاتے۔
پھر امریکہ کے بڑے بڑے سرمایہ کار جن میں معروف کاروباری شخصیت اور میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوخ، اوریکل کمپنی کی بانی لیری الیسن، وال مارٹ کمپنی کا مالک والٹن خاندان اور دیگر بڑے نام شامل ہیں کس طرح بغیر سوچے سمجھے اتنی خطیر رقوم تھیرانوس پر لگا بیٹھے؟
اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے شاکر حسین کہتے ہیں کہ تھیرانوس کمپنی جو وعدہ کر رہی تھی وہ گویا بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں انقلابی قدم تھا۔ کوئی بڑا نام اس سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ تھیرانوس ایک ایسا مقناطیس بن گیا تھا جس سے جڑنے والا ہر سرمایہ کار دوسرے کے لیے کشش کے باعث بنتا رہا۔
شاکر کے مطابق اس کے پس پردہ غالباً یہی خیال ہو گا کہ جب ایک اتنے بڑے نام نے کمپنی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے تو اپنے طور تحقیق کر ہی لی ہو گی اس لیے ہمیں ضرورت نہیں۔
یہی نہیں تھیرانوس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی معتبر ناموں سے جھلملا رہا تھا۔ بورڈ ممبرز میں دو سابق وزرائے خارجہ جارج شولٹز اور ہنری کسنجر، سابق سینیٹر سیم نن، ریٹائرڈ نیوی ایڈمرل گیری رفیڈ، سابق جنرل جیمز میٹس جو بعد میں ٹرمپ حکومت میں وزیرِ دفاع بنے جیسے بڑے بڑے نام شامل رہے۔
شاکر حسین کے مطابق تھیرانوس کے کیس میں ایسا ہی ہوا کہ سرمایہ کار ہوں یا بورڈ ممبران سب ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کمپنی سے جڑتے رہے۔ ان کے نزدیک تھیرانوس ایک ایسا یادگار اور انقلابی پراجیکٹ تھا جس سے جڑنا شاید ان کے قد میں مزید اضافہ کر دے گا۔
شاکر حسین کہتے ہیں کہ پہلا بڑا نام شاید ذاتی تعلقات کی وجہ سے آیا ہو، دوسرا نام پہلے کو دیکھ کر آگیا اور پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔
تھیرانوس صرف سرمایہ کاروں کو ہی اپنی جانب نہیں کھینچ رہی تھی بلکہ ملک کے سربراہان کہ توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی تھی۔ 2015 میں اس وقت کے نائب صدر جو بائیڈن نے تھیرانوس کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز کے دورے میں الزبتھ ہومز کی شخصیت کو متاثر کن قرار دیا۔
تھیرانوس کی لیب دیکھنے کے بعد جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ "مستقبل کی لیب" ہے۔ بعد میں پتا لگا تھا کہ یہ جعلی لیب خاص طور پر نائب صدر کے دورے کے لیے تیار کی گئی تھی۔
سال 2015 میں ہی صدر براک اوباما نے وائٹ ہاؤس کی ایک تقریب میں الزبتھ ہومز کو دنیا بھر میں کاروبار کے فروغ کے لیے صدارتی سفیر بھی نامزد کیا۔
ایک عوامی تقریب میں سابق صدر بل کلنٹن الزبتھ ہومز سے مائیک پر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ آپ نے 12 سال پہلے اس کمپنی کی بنیاد رکھی، ذرا حاضرین کو بتایئے کہ آپ کی عمر اس وقت کیا تھی؟ الزبتھ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، 19 سال۔
مختصراً الزبتھ ہومز کم عمری میں میڈیکل سائنس کی فیلڈ میں جدت لانے والی ایک ایسی سلیبریٹی بن گئی تھیں جن سے ہر شخص متاثر تھا، ہر شخص ملنا چاہتا تھا ما سوائے ان کی اپنی کمپنی کے ملازمین کے۔
الزبتھ ہومز اور رمیش بلوانی مقدمات ، آگے کیا ہوگا؟
ابتدا میں سرمایہ کاروں اور کلائنٹس کے ساتھ دھوکے پر الزبتھ اور رمیش کا ایک ساتھ ٹرائل ہونا تھا مگر الزبتھ کی جانب سے یہ عندیہ دیے جانے پر کہ وہ رمیش بلوانی کو قصوروار ٹھہرائیں گی، دونوں کے علیحدہ ٹرائلز کا فیصلہ کیا گیا۔
اپنے ٹرائل میں الزبتھ ہومز نے خود کو بے قصور قرار دیتے ہوئے رمیش بلوانی پر الزام لگایا کہ کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر وہ تھے اور انہوں نے الزبتھ کو اور سرمایہ کاروں کو کمپنی کی مالیت کے بارے میں گمراہ کیا۔
الزبتھ ہومز نے عدالت میں رمیش پر یہ بھی الزام لگایا کہ اس رشتے کے دوران رمیش نے انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا۔
الزبتھ کے مطابق رمیش کا کہنا تھا کہ ان کی ذہنی صلاحیت معمولی ہے، انہیں کاروبار کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں اور اگر وہ اپنے طریقۂ کار پر چلتی رہیں تو کمپنی کا دیوالیہ نکل جائے گا۔
عدالتی کارروائی کے بعد کیا ہوگا؟
الزبتھ ہومز اس وقت پانچ لاکھ ڈالرز بطور ضمانت ادا کرنے پر رہا ہیں۔ انہیں اس سال ستمبر میں سزا سنائی جائے گی جو 20 برس قید تک کی ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ان 20 برس میں سے الزبتھ ہومز کتنے سال جیل میں کاٹیں گی یہ ان کے سابقہ بوائے فرینڈ اور کمپنی کے سابق صدر رمیش سنی بلوانی کے کیس کے نتائج پر بھی منحصر ہوگا جن کا ٹرائل منگل سے شروع ہو رہا ہے۔
دوسری جانب مبصرین کے مطابق الزبتھ ہومز مقدمے کی سماعت میں رمیش بلوانی پر لگائے گئے الزامات کے اثرات بلوانی فراڈ کیس پر بھی نظر آئیں گے۔
بعض قانون دانوں کے مطابق خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے رمیش بلوانی کو ان الزامات کا رخ دوبارہ الزبتھ ہومز کی جانب موڑنا ہوگا۔
رمیش بلوانی کو انہی 12 الزامات کا سامنا ہے جو الزبتھ ہومز پر لگائے گئے تھے۔ بلوانی صحتِ جرم سے انکار کر چکے ہیں۔