اوبامہ کے بہترین لمحات میں سے ایک بن لادن کے بار ےمیں تھا, جِس میں اُنہوں نے واضح کیا کہ اُس کو ہلاک کرنا اِس لئے بھی ضروری تھا تاکہ ساری دُنیا کو ایک پیغام دیا جائے، بشمول اُن دہشت گردوں کے جو امریکہ کو نشانہ بنانے کی سازش کریں
پیر کی شام کو صدر براک اوبامہ اور اُن کے ریپبلکن مدِّ مقابل مٹ رامنی کے درمیان جو تیسرا اور آخری صدارتی مباحثہ ہوا اُس میں کثرت ِرائے سے براک اوبامہ کو فتحیاب قرار دیا گیا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک تجزئے میں کہتا ہے کہ خارجہ پالیسی پر اِس مباحثے میں مِٹ رامنی کا نصب ا لعین اپنے آپ کو متبادل صدراور کمانڈر انچیف کے طور پر پیش کر نا تھا۔
لیکن، بن غازی لبیا میں امریکی سفارتی دفتر پر حملے کے جواب میں براک اوبامہ کی جوابی کاروائی کے بار ےمیں جو پہلا سوال اُن سے پُوچھا گیا تو انہوں نے نقطہ چینی کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے دیا ۔بلکہ اوسامہ بن لادن کےخلاف کی گئی کاروائی کی تعریف کی اور شام میں امریکہ کی فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا جیسا کہ اوبامہ نے کیا ہے۔
اِس پر اوبامہ نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ا ب تک جو قدم اٹھائے گئے ہیں رامنی کو اُن سے اتفاق ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے مباحثے کا رُخ خارجہ پالیسی سے بدل کر داخلی امور کی طرف موڑ دیا،خاص طور پر قومی معیشت کی طرف، اور پورے مباحثے کے دوران إسی کی رٹ لگاتے رہے۔
آغازہی میں مشرق وسطیٰ پر بحث کے دوران واضح ہوگیا کہ جہاں ان امور پر صدر کو پورا عبور حاصل ہے وہاں بین الاقوامی امُور میں مٹ رامنی کا مبلغ علم بے یقینی کا شکار ہے۔
لیکن، اخبار کہتاہے کہ اس کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں اوبامہ کی فوقیت کم ہوتی جارہی ہے اور ’واشنگٹن پوسٹ اے بی سی‘ کےایک جائزے کے مطابق جو مباحثے سے کُچھ گھنٹے جاری کیا گیا، اوبامہ کو ستمبر کے مہینے میں آٹھ پواٰئینٹس کی جو سبقت حاصل تھی وُہ سکڑ کرتین پوائینٹس رہ گئی ہے ۔ البتہ، مُباحثے کے اختتام پر سی بی ایس کے فوری استصواب کے مطابق اس میں شرکت کرنے والوں میں سے 53 فیصد نے اوبامہ کو فاتح قرار دیا اور 23 فیصدا نے رامنی کو۔
’نیو یارک ٹا ئمز‘ کہتا ہے کہ دونوں امیدوار اس مباحثے میں امور خارجہ پر بات کرنے آئے تھے جو، مسٹر اوبامہ کا سیاسی اثاثہ مانا جاتا رہا ہے، لیکن جوحالیہ دنوں میں اُن کے لئے ایک بوجھ بن گیا ہے، خاص طور پرلبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کے بعد۔کمانڈر انچیف کون بہتر ہوگا، اس مد میں اوبامہ کو دس پواینٹس کی سبقت تھی جو اب سکڑ کر تین پوائنٹس رہ گئی ہے۔
’بالٹی مور سن‘ نے پیر کے اس مباحثے کا جو تجزیہ کیا ہے اُس کے مطابق اوبامہ کو پیر کے مباحثے میں واضح کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے۔ لیکن، وسیع تر تناظر میں یہ بات یقینی نہیں ہے کہ یہ اوبامہ کے لئے کسی بڑے فائدے کا باعث بنے۔
’شکاگو ٹریبیون‘ کہتا ہے کہ جن لوگوں کو رامنی سے یہ امید تھی کہ وہ امور سے باخبر ہونے سے زیادہ لڑائی پر آمادہ نظر آئیں گے،ان کو مایوسی ہوئی ہوگی ۔لیکن، انہوں نے دیکھ لیا ہوگا کہ صدر اوبامہ عالمی امور میں اپنا کردارکس اعتماد سے ادا کرتے ہیں، خارجہ امور میں سے دونوں امید واروں کاایک ہی طرح کاموٴقف تھاجن میں افغانستان سے لے کر پاکستان اور چین اور پھر ڈرون طیاروں کا استعمال شامل ہے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اگرچہ مباحثہ خارجہ پالیسی سے متعلّق تھا دونوں امیدوار اپنے اپنے جوابوں میں معیشت اور روزگار کا ذکر چھیڑ تے رہے ، اور اس کا کہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو کون بہترطور پر نمٹ سکتا ہے۔ اوبامہ کے بہترین لمحات میں سے ایک بن لادن کے بار ےمیں تھا جِس میں اُنہوں نے واضح کیا کہ اُس کو ہلاک کرنا اِس لئے بھی ضروری تھا تاکہ ساری دُنیا کو ایک پیغام دیا جائے،بشمول اُن دہشت گردوں کے جو امریکہ کو نشانہ بنانے کی سازش کریں۔
’لاس اینجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ آخری مباحثے میں صاف ظاہر تھا کہ مٹ رامنی کے مقابلے میں اوبامہ کا پلّہ بُہت بھاری تھا۔ لیکن کئی روز بعد ہی پتہ چلے گا کہ آیا اِس دوڑ کی سمت میں کوئی بڑی تبدیلی آ ئی ہے، کیونکہ پچھلے کُچھ ہفتو ں کےدوران وہ رامنی کی سمت جا رہی تھی۔
’ایٹلانٹا جرنل کانس ٹی ٹُیوشن‘ کہتا ہے کہ اب جب کہ تینوں مباحثے ختم ہو چُکے ہیں،
صدر اوبامہ اور مٹ رامنی چھ نومبر کو انتخابات کے دن تک اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں گے، جِس کے لئے وُہ لمبے لمبے سفر کریں گے۔ اپنے ووٹروںمیں ولولہ اور جوش پیدا کریں گے اور جب یہ سب کُچھ اختتام کو پہنچے گا تو وہ اس مہم پر دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کر چُکے ہونگے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک تجزئے میں کہتا ہے کہ خارجہ پالیسی پر اِس مباحثے میں مِٹ رامنی کا نصب ا لعین اپنے آپ کو متبادل صدراور کمانڈر انچیف کے طور پر پیش کر نا تھا۔
لیکن، بن غازی لبیا میں امریکی سفارتی دفتر پر حملے کے جواب میں براک اوبامہ کی جوابی کاروائی کے بار ےمیں جو پہلا سوال اُن سے پُوچھا گیا تو انہوں نے نقطہ چینی کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے دیا ۔بلکہ اوسامہ بن لادن کےخلاف کی گئی کاروائی کی تعریف کی اور شام میں امریکہ کی فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا جیسا کہ اوبامہ نے کیا ہے۔
اِس پر اوبامہ نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ا ب تک جو قدم اٹھائے گئے ہیں رامنی کو اُن سے اتفاق ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے مباحثے کا رُخ خارجہ پالیسی سے بدل کر داخلی امور کی طرف موڑ دیا،خاص طور پر قومی معیشت کی طرف، اور پورے مباحثے کے دوران إسی کی رٹ لگاتے رہے۔
آغازہی میں مشرق وسطیٰ پر بحث کے دوران واضح ہوگیا کہ جہاں ان امور پر صدر کو پورا عبور حاصل ہے وہاں بین الاقوامی امُور میں مٹ رامنی کا مبلغ علم بے یقینی کا شکار ہے۔
لیکن، اخبار کہتاہے کہ اس کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں اوبامہ کی فوقیت کم ہوتی جارہی ہے اور ’واشنگٹن پوسٹ اے بی سی‘ کےایک جائزے کے مطابق جو مباحثے سے کُچھ گھنٹے جاری کیا گیا، اوبامہ کو ستمبر کے مہینے میں آٹھ پواٰئینٹس کی جو سبقت حاصل تھی وُہ سکڑ کرتین پوائینٹس رہ گئی ہے ۔ البتہ، مُباحثے کے اختتام پر سی بی ایس کے فوری استصواب کے مطابق اس میں شرکت کرنے والوں میں سے 53 فیصد نے اوبامہ کو فاتح قرار دیا اور 23 فیصدا نے رامنی کو۔
’نیو یارک ٹا ئمز‘ کہتا ہے کہ دونوں امیدوار اس مباحثے میں امور خارجہ پر بات کرنے آئے تھے جو، مسٹر اوبامہ کا سیاسی اثاثہ مانا جاتا رہا ہے، لیکن جوحالیہ دنوں میں اُن کے لئے ایک بوجھ بن گیا ہے، خاص طور پرلبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کے بعد۔کمانڈر انچیف کون بہتر ہوگا، اس مد میں اوبامہ کو دس پواینٹس کی سبقت تھی جو اب سکڑ کر تین پوائنٹس رہ گئی ہے۔
’بالٹی مور سن‘ نے پیر کے اس مباحثے کا جو تجزیہ کیا ہے اُس کے مطابق اوبامہ کو پیر کے مباحثے میں واضح کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے۔ لیکن، وسیع تر تناظر میں یہ بات یقینی نہیں ہے کہ یہ اوبامہ کے لئے کسی بڑے فائدے کا باعث بنے۔
’شکاگو ٹریبیون‘ کہتا ہے کہ جن لوگوں کو رامنی سے یہ امید تھی کہ وہ امور سے باخبر ہونے سے زیادہ لڑائی پر آمادہ نظر آئیں گے،ان کو مایوسی ہوئی ہوگی ۔لیکن، انہوں نے دیکھ لیا ہوگا کہ صدر اوبامہ عالمی امور میں اپنا کردارکس اعتماد سے ادا کرتے ہیں، خارجہ امور میں سے دونوں امید واروں کاایک ہی طرح کاموٴقف تھاجن میں افغانستان سے لے کر پاکستان اور چین اور پھر ڈرون طیاروں کا استعمال شامل ہے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اگرچہ مباحثہ خارجہ پالیسی سے متعلّق تھا دونوں امیدوار اپنے اپنے جوابوں میں معیشت اور روزگار کا ذکر چھیڑ تے رہے ، اور اس کا کہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو کون بہترطور پر نمٹ سکتا ہے۔ اوبامہ کے بہترین لمحات میں سے ایک بن لادن کے بار ےمیں تھا جِس میں اُنہوں نے واضح کیا کہ اُس کو ہلاک کرنا اِس لئے بھی ضروری تھا تاکہ ساری دُنیا کو ایک پیغام دیا جائے،بشمول اُن دہشت گردوں کے جو امریکہ کو نشانہ بنانے کی سازش کریں۔
’لاس اینجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ آخری مباحثے میں صاف ظاہر تھا کہ مٹ رامنی کے مقابلے میں اوبامہ کا پلّہ بُہت بھاری تھا۔ لیکن کئی روز بعد ہی پتہ چلے گا کہ آیا اِس دوڑ کی سمت میں کوئی بڑی تبدیلی آ ئی ہے، کیونکہ پچھلے کُچھ ہفتو ں کےدوران وہ رامنی کی سمت جا رہی تھی۔
’ایٹلانٹا جرنل کانس ٹی ٹُیوشن‘ کہتا ہے کہ اب جب کہ تینوں مباحثے ختم ہو چُکے ہیں،
صدر اوبامہ اور مٹ رامنی چھ نومبر کو انتخابات کے دن تک اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں گے، جِس کے لئے وُہ لمبے لمبے سفر کریں گے۔ اپنے ووٹروںمیں ولولہ اور جوش پیدا کریں گے اور جب یہ سب کُچھ اختتام کو پہنچے گا تو وہ اس مہم پر دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کر چُکے ہونگے۔