امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ وبا کی زد میں آنے والے ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ خبر بھی منظر عام پر آئی ہے کہ وفاقی حکومت کے ہزاروں اہلکار اب تک وائرس کا شکار ہوچکے ہیں اور درجنوں کا انتقال ہوگیا ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے اپنے 2 لاکھ ملازمین سے کہا ہے کہ وہ اگلے سال جولائی تک گھر ہی سے کام کریں۔
وائٹ ہاؤس نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ قومی سلامتی کونسل کے سربراہ رابرٹ او برائن کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ ان میں معمولی علامات ظاہر ہوئی ہیں اور وہ تنہائی میں چلے گئے ہیں اور انھوں نے محفوظ مقام سے کام جاری رکھا ہوا ہے۔
اوبرائن کو صدر ٹرمپ سے مسلسل رابطہ رہتا ہے، لیکن صدر ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاوس میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کی حالیہ دنوں میں برائن سے ملاقات نہیں ہوئی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، 54 سالہ اوبرائن کے وائرس میں مبتلا ہونے سے صدر ٹرمپ یا نائب صدر مائیک پینس کو خطرہ لاحق نہیں ہوا اور قومی سلامتی کونسل بھی معمول کے مطابق کام جاری رکھے گی۔
اس سے پہلے مائیک پینس کی کمیونی کیشن معاون کیٹی ملر اور صدر ٹرمپ کے دفتر کے ایک اہلکار کو بھی کرونا وائرس لاحق ہوا تھا۔
اسی موقع پر محکمہ محنت کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کے 4011 ملازمین نے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی بنیاد پر ہرجانے کی درخواست دی ہے۔ جن 60 ملازمین کا وائرس سے انتقال ہوگیا، ان کے لواحقین نے اسی بنیاد پر ہرجانہ طلب کیا ہے۔
گورنمنٹ ایمپلائز کمپنزیشن ایکٹ کے تحت 23 جولائی تک درخواست دینے والوں کی بڑی تعداد تین محکموں سے تعلق رکھتی ہے جن میں محکمہ داخلی سلامتی، محکمہ انصاف اور بزرگوں کے امور کا محکمہ شامل ہے۔
ان میں 1623 کی درخواست منظور کی جا چکی ہے، چند ایک کو مسترد کیا گیا ہے جبکہ باقی پر کارروائی جاری ہے۔ حکومت کے لاکھوں ملازمین ایسی خدمات انجام دے رہے ہیں جن کے دوران کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کا انتہائی خطرہ برقرار ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، وائرس کی زد میں آںے والے سرکاری ملازمین کی تعداد لگ بھگ 19 ہزار اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً 100 ہے۔
صرف محکمہ دفاع اپنے 29 ہزار ملازمین کے بیمار ہونے کی اطلاع دے چکا ہے۔ ان میں 5 ہزار سویلین ملازمین شامل ہیں جن میں 257 اسپتال میں داخل ہیں اور 32 ہلاک ہوچکے ہیں۔ محکمہ ڈاک کے 6 ہزار ملازمین وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب گوگل نے اپنے 2 لاکھ ملازمین سے کہا ہے کہ وہ اگلے ایک سال تک گھر سے کام جاری رکھیں۔ اس سے پہلے اس نے جنوری تک گھر سے کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن، کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد اس تاریخ پر نظرثانی کی گئی ہے۔
یہ ہدایت امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور بھارت میں کام کرنے والے گوگل کے ملازمین کے لیے بھی ہے۔ امکان ہے کہ گوگل کے فیصلے کے بعد امریکہ کے دوسرے ادارے بھی اس بارے میں سوچ بچار کریں گے، کیونکہ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز میں دوبارہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
پیر تک امریکہ میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 42 لاکھ اور اموات کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار سے زیادہ ہوچکی تھی۔