کراچی کا علاقہ ’منگھوپیر‘ ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ ویسے تو اس کی وجہ شہرت یہاں واقع خواجہ حسن سلطان بابا کا قدیم مزار ہے۔ لیکن، حالیہ ہفتوں میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے بعد قیام امن اور رونقوں کی بحالی اسے دوبارہ شہ سرخیوں میں لے آئی ہے۔
رونقوں کی بحالی کے ساتھ ہی سلطان بابا کے مزار پر آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، ورنہ مخدوش امن و امان کی صورت کے باعث زائرین نے یہاں کا رخ کرنا تقریباً تقریباً ختم کردیا تھا۔
سلطان بابا کا مزار شیدی قوم کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کا باعث رہا ہے۔
دراصل یہ بلوچی قبیلہ ہے۔ اس قبیلے کی جانب سے سالہاسال سے مزار پر ہر سال ایک میلہ بھی لگتا آیا ہے۔ تاہم، درمیان میں کچھ سال ایسے بھی گزرے ہیں جب امن وامان کی ابتر صورتحال کے باعث یہ میلہ یا تو منسوخ کردیا گیا۔
منگھوپیر اورنگی ٹاوٴن اور قصبہ کالونی سے کچھ فاصلے پر ہے۔ مزار سطح سمندر سے تقریباً 600 فٹ بلند ہے اور ایک پہاڑی چوٹی پر واقع ہے۔ زیادہ تر زائرین کے لئے مزار کے ساتھ ساتھ یہاں موجود ایک تالاب بھی دلکشی کا باعث ہے جہاں تقریباً ایک سو مگر مچھ رہتے ہیں۔
اسی مزار کے احاطے میں ایک جھرنا بھی مزار کی وجہ شہرت اور لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ روایت مشہور ہے کہ جلد کے مریض اگر اس جھرنے کے پانی سے غسل کرلیں تو تمام مرض ختم ہو جاتا ہے۔
تالاب میں موجود مگر مچھوں میں سے بعض کی عمر قریب قریب 100 سال ہے جبکہ کچھ تاریخی حوالے میں اس بات کے بھی اعشارے ملتے ہیں کہ مزار کی تاریخ 800 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ سندھ کے ایک مورخ گل حسن کلمتی نے اپنی کتاب ’کراچی سندھ جی مارئی‘ میں لکھا ہے کہ ’حاجی سلطان المعروف منگھوپیر کی پیدائش 1162ء جبکہ وفات 1252ء میں ہوئی تھی۔ لیکن یہ علاقہ اس سے پہلے بھی موجود تھا۔‘
ایک روایت کے مطابق، بزرگ سلطان منگھو، حضرت فرید گنج شکر اور قلندر شہباز کے دائرہ اخباب میں شامل تھے۔ اسی قربت کی وجہ سے سلطان منگھوپیر کی وفات کے بعد ان کی یاد میں 9 ذوالحج کو ان کا عرس عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق، قلندر شہباز جب سلطان منگھوپیر کے پاس آئے تو انہوں نے مگر مچھ پر سواری کی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق منگھوپیر نے ندی میں پھول پھینکے جو مگر مچھ بن گئے۔