خیبر پختونخوا کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے چترال کے ایک گاؤں میں کھدائی کے دوران تین ہزار برس قدیم قبریں دریافت کی ہیں۔ ان قبروں میں ہڈیوں کے علاوہ مٹی، لوہے، تانبے کے برتن اور دیگر نوادرات بھی موجود ہیں۔
ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کے اسسٹنٹ پروفیسر عبدالحمید خان کا کہنا تھا کہ کھدائی کے دوران ملنے والی ہڈیوں کو ڈی این اے کے لیے امریکہ بھیجا جائے گا جس سے ان کی چترال کی موجودہ آبادی سے تعلق کے بارے میں معلومات کے حصول کی کوشش کی جائے گی۔
چترال میوزیم کے اہلکار میر حیات خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جس جگہ پر قدیم قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ وہ ہوائی اڈے کے قریب سنگور نامی گاؤں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مانسہرہ کی ہزارہ یونیورسٹی کے شعبۂ آثار قدیمہ کے ماہرین اور اساتذہ اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور اس پرانے قبرستان میں کھدائی تین ماہ سے جاری ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبد الحمید اس منصوبے کے نگران ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک 15 قبروں کی کھدائی مکمل کی گئی ہے اور ان قبروں میں سے انسانی باقیات کو جمع کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ان قبروں میں انسانی ہڈیوں کے علاوہ مٹی کے برتن، لوہے اور تانبے کے اوزار اور زیورات بھی ملے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چترال کے حوالے سے یہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ایک تحقیقی منصوبہ ہے۔ اس تحقیق میں چترال میں رہائش پذیر لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ لوگ کون ہیں؟
انہوں نے کہا ہے کہ کھدائی کے دوران دریافت ہونے والی ہڈیوں اور انسانی اعضا کے باقیات کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے امریکہ بھیجا جائے گا جس کا مقصد تین ہزارہ سال قبل مرنے والے اور موجودہ چترال میں مقیم موجود لوگوں کے درمیان رشتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے ماضی کے بیماریوں اور خوراک کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
میر حیات خان کا کہنا تھا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق تین ہزار سال پہلے مرنے والے لوگوں کا تعلق آرین نسل سے ہے۔ 2008 میں بھی مختصر عرصے کے لیے اسی قبرستان پر ایک تحقیق ہوئی تھی۔
پروفیسر عبد الحمید خان نے بتایا کے لگ بھگ 20 سال قبل انہوں نے اسی قبرستان میں کھدائی شروع کی تھی مگر اب کی کھدائی ماضی کے نسبت کافی مختلف ہے۔ اس کھدائی میں نہ صرف اسی قبرستان بلکہ چترال کے دیگر علاقوں کے پرانے قبرستانوں میں بھی تحقیق کی جائے گی۔
چترال کا محل وقوع اور تاریخی حیثیت
چترال کا شمار خیبر پختونخوا کے انتہائی دورافتادہ پہاڑی اور پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس علاقے کو باقاعدہ ضلعے کی حیثیت 1970 میں دی گئی تھی۔ اس کو ضلعے کا درجہ تین آزاد ریاستوں دیر، سوات اور چترال کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد دی گئی۔
اس ضلع کی آبادی لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ ہے۔ چترال کا شمار انتہائی سرد علاقوں میں ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں لواری ٹاپ کے پہاڑوں پر برف باری کے باعث چترال کا مواصلاتی رابطہ سڑک کے ذریعے ملک کے دیگر علاقوں سے منقطع رہتا تھا تاہم لگ بھگ 10 سال قبل لواری ٹنل کے تعمیر سے یہ مسئلہ اب حل ہو چکا ہے۔
چترال کے سینئر صحافی سید ذوالفقار علی شاہ کے مطابق چترال کی سرحدیں افغانستان کے 65 کلومیٹر لمبی اور اٹھارہ کلومیٹر چوڑی واخان پٹی کے ذریعے چین اور وسط ایشیا کے ریاست تاجکستان سے ملی ہوئی ہے۔
چترال کی وادی کیلاش میں رہائش پذیر لوگوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان میں ان لوگوں کا شمار غیر مسلم اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو یونان کی قدم نسل سے بتاتے ہیں۔
ذوالفقار علی شاہ کا کہنا ہے کہ چترال میں اسماعیلی برادری بھی ہے۔ جن کے آبا اجداد مصر سے آئے تھے۔ جب کہ کیلاش برادری کے لوگوں کا تعلق یونانی نسل سے ہے۔ یہ ان یونانی لوگوں کے اولاد ہیں جو سکندرِ اعظم کے ہندوستان پر حملوں کے وقت وسط ایشیائی ممالک سے مختلف راستوں کے ذریعے برصغیر میں داخل ہوئے تھے اور پھر مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔
پروفیسر عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ابھی تک 14 قبروں سے برآمد ہونے والے انسانی باقیات اور دیگر نوادرات کے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ذوالفقار علی شاہ کے مطابق وادی کیلاش کے لوگ بھی ماضی میں مردوں کو اسی طرح دفن کر دیتے تھے اور قبروں میں اوزار کے علاوہ قیمتی اشیا بھی ان کے ساتھ دفن کی جاتی تھیں۔