تبت کی جلاوطن حکومت کے وزیراعظم نے چین سے کہا کہ وہ مستقبل میں حکومت کے مخالف تبتیوں پر مقدموں میں اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا کے مبصروں کو آنے کی اجازت دے ۔
نئی دہلی —
تبت کی اس بدھ مت خانقاہ کے سربراہ نے جس کے ایک بھکشو کو جمعرات کے روز لوگوں کو خود سوزی پر اکسانے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے، چین کے عدالتی نظام کی مذمت کی ہے ۔
تبت کے صوبہ سیچوان میں ابا کاؤنٹی کی کیرتی خانقاہ کے بھکشو، لورانگ کونچوک ان آٹھ سرگرم کارکنوں میں شامل تھے جن پر ایک چینی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ۔
انہیں موت کی سزا دی گئی اور دو سال کے لیے یہ سزا معطل کر دی گئی ۔ عام طور سے اس قسم کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی جاتی ہے ۔
کیرتی خانقاہ تبت میں چین کی حکومت کے خلاف احتجاجوں کا گڑھ بن کر ابھری ہے۔ 2009 سے اب تک، تقریباً 100 تبتیوں نے خود کو آگ لگا کر اپنی جان دی ہے۔
ان میں سے 15 سے 30 افراد اس خانقاہ کے ارکان تھے۔ اس خانقاہ پر اب بھی چین کی سیکورٹی فورسز کا کنٹرول ہے۔
اس خانقاہ کے سربراہ، گیارھویں کیرتی رنپوچ 50 برس سے زیادہ عرصے سے بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہےہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صورتِ حال روز بروز زیادہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
’’تبت کے ملک اور اس کے لوگوں کا نام و نشان مٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تبت سوشلسٹ جنت ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خود سوزی کے یہ واقعات انفرادی اور رضاکارانہ اقدام کا نتیجہ ہیں۔ میں چینی حکومت سے اپیل کر تا ہوں کہ وہ تبت کے لوگوں کے ساتھ زیادہ فراخدلی سے پیش آئے۔‘‘
یہ بزرگ لاما بھارت کے دارالحکومت ، نئی دہلی میں ایک چار روزہ امن کیمپ میں شرکت کر رہےہیں جہاں دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے 6000 سے زیادہ تبتی جمع ہوئے ہیں۔
جب کیرتی رنپوچ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود سوزی کو معاف کر دیں گے یا اسے مکمل طور پر مسترد کر دیں گے، تو انھوں نے جواب دیا’’جو لوگ تبت کے اندر رہ رہے ہیں ، میں ان سے کوئی رابطہ نہیں کر سکتا اور نہ انہیں مشورہ دے سکتا ہوں۔ لیکن تبت کے جو لوگ آزاد دنیا میں رہ رہے ہیں، انہیں میں یہ مشورہ دوں گا کہ اپنے احساسات کے اظہار اور احتجاج کرنے کے دوسرے طریقے بھی موجود ہیں۔‘‘
جمعہ کے روز نئی دہلی کے اس امن کیمپ کا تیسرا دن تھا۔ اس روز جب تبتی بچوں نے ایک ڈرامہ اسٹیج کیا جس میں چین کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصویر کشی کی گئی تو بڑی تعداد میں موجود مرد اور عورتیں رو پڑیں ۔
اس احتجاجی اجتماع میں تبت کی جلا وطن حکومت کے وزیرِ اعظم لوبسانگ سانگے بھی موجود تھے ۔ انھوں نے لورانگ کونچوک اور سات دوسرے سر گرم افراد پر چلائے گئے مقدمے پر تنقید کی اور عدالت کے فیصلے کو نا منصفانہ قرار دیا ۔
انھوں نے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی کے اس تبصرے کو مسترد کر دیا کہ خود سوزی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں دلائی لاما کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے چین سے کہا کہ وہ مستقبل میں حکومت کے مخالف تبتیوں پر مقدموں میں اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا کے مبصروں کو آنے کی اجازت دے ۔
’’اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ چین اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے اور ان میں اصلاحات کرے نہ کہ یہ اور زیادہ سخت گیر پالیسیاں اختیار کی جائیں ورنہ ظلم و ستم، قید اور ناراضگی کا نہ ختم ہونے والا چکر کبھی ختم نہیں ہو گا۔ یہ چکر ختم ہونا ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پر امن ذرائع سے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔‘‘
اگلے مہینے لاہسہ سے دلائی لاما کے فرار کی 54 ویں برسی ہے اور مارچ 2008 میں چین کے خلاف پورے تبت میں جو احتجاج شروع ہوئے تھے، ان کی برسی بھی منائی جائے گی۔ بیرونی ملکوں میں رہنے والے تبتیوں کا خیال ہے کہ کونچوک کو جس سزائے موت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ در اصل تبتیوں کے خلاف چینی حکومت کی نئی مہم کی ابتدا ہے ۔
تبت کے صوبہ سیچوان میں ابا کاؤنٹی کی کیرتی خانقاہ کے بھکشو، لورانگ کونچوک ان آٹھ سرگرم کارکنوں میں شامل تھے جن پر ایک چینی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ۔
انہیں موت کی سزا دی گئی اور دو سال کے لیے یہ سزا معطل کر دی گئی ۔ عام طور سے اس قسم کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی جاتی ہے ۔
کیرتی خانقاہ تبت میں چین کی حکومت کے خلاف احتجاجوں کا گڑھ بن کر ابھری ہے۔ 2009 سے اب تک، تقریباً 100 تبتیوں نے خود کو آگ لگا کر اپنی جان دی ہے۔
ان میں سے 15 سے 30 افراد اس خانقاہ کے ارکان تھے۔ اس خانقاہ پر اب بھی چین کی سیکورٹی فورسز کا کنٹرول ہے۔
اس خانقاہ کے سربراہ، گیارھویں کیرتی رنپوچ 50 برس سے زیادہ عرصے سے بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہےہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صورتِ حال روز بروز زیادہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
’’تبت کے ملک اور اس کے لوگوں کا نام و نشان مٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تبت سوشلسٹ جنت ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خود سوزی کے یہ واقعات انفرادی اور رضاکارانہ اقدام کا نتیجہ ہیں۔ میں چینی حکومت سے اپیل کر تا ہوں کہ وہ تبت کے لوگوں کے ساتھ زیادہ فراخدلی سے پیش آئے۔‘‘
یہ بزرگ لاما بھارت کے دارالحکومت ، نئی دہلی میں ایک چار روزہ امن کیمپ میں شرکت کر رہےہیں جہاں دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے 6000 سے زیادہ تبتی جمع ہوئے ہیں۔
جب کیرتی رنپوچ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود سوزی کو معاف کر دیں گے یا اسے مکمل طور پر مسترد کر دیں گے، تو انھوں نے جواب دیا’’جو لوگ تبت کے اندر رہ رہے ہیں ، میں ان سے کوئی رابطہ نہیں کر سکتا اور نہ انہیں مشورہ دے سکتا ہوں۔ لیکن تبت کے جو لوگ آزاد دنیا میں رہ رہے ہیں، انہیں میں یہ مشورہ دوں گا کہ اپنے احساسات کے اظہار اور احتجاج کرنے کے دوسرے طریقے بھی موجود ہیں۔‘‘
جمعہ کے روز نئی دہلی کے اس امن کیمپ کا تیسرا دن تھا۔ اس روز جب تبتی بچوں نے ایک ڈرامہ اسٹیج کیا جس میں چین کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصویر کشی کی گئی تو بڑی تعداد میں موجود مرد اور عورتیں رو پڑیں ۔
اس احتجاجی اجتماع میں تبت کی جلا وطن حکومت کے وزیرِ اعظم لوبسانگ سانگے بھی موجود تھے ۔ انھوں نے لورانگ کونچوک اور سات دوسرے سر گرم افراد پر چلائے گئے مقدمے پر تنقید کی اور عدالت کے فیصلے کو نا منصفانہ قرار دیا ۔
انھوں نے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی کے اس تبصرے کو مسترد کر دیا کہ خود سوزی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں دلائی لاما کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے چین سے کہا کہ وہ مستقبل میں حکومت کے مخالف تبتیوں پر مقدموں میں اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا کے مبصروں کو آنے کی اجازت دے ۔
’’اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ چین اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے اور ان میں اصلاحات کرے نہ کہ یہ اور زیادہ سخت گیر پالیسیاں اختیار کی جائیں ورنہ ظلم و ستم، قید اور ناراضگی کا نہ ختم ہونے والا چکر کبھی ختم نہیں ہو گا۔ یہ چکر ختم ہونا ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پر امن ذرائع سے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔‘‘
اگلے مہینے لاہسہ سے دلائی لاما کے فرار کی 54 ویں برسی ہے اور مارچ 2008 میں چین کے خلاف پورے تبت میں جو احتجاج شروع ہوئے تھے، ان کی برسی بھی منائی جائے گی۔ بیرونی ملکوں میں رہنے والے تبتیوں کا خیال ہے کہ کونچوک کو جس سزائے موت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ در اصل تبتیوں کے خلاف چینی حکومت کی نئی مہم کی ابتدا ہے ۔