خود سوزی کرنے والی تبتی خاتون چل بسی

رواں سال مارچ میں بھارتی شہر میں مظاہرے کے دوران خود سوزی کرنے والا ایک تبتی باشندہ شعلوں میں لپٹا بھاگ رہا ہے۔

تبت کے علاقوں میں 2009ء سے اب تک چین کی حکمرانی کےخلاف احتجاجاً خود سوزی کرنے کے 75 واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے 60 افراد کی موت واقع ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ چین کی حکمرانی کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں خود سوزی کرنے والی ایک تبتی خاتون ٹیکسی ڈرائیور، جو دو بچوں کی ماں تھی، ہفتہ کو چل بسی۔

واشنگٹن میں قائم تنظیم ’انٹرنیشنل کیمپین فار تبت‘ نے اتوار کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ چَگ مو کیے نامی خاتون نے چین کے مغربی قنغائی صوبے کے ضلع تونگرن میں خود کا آگ لگائی تھی۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ تبتی خاتون کی موت کے بعد راہب اور دیگر لوگ لاما راہبوں کے لیے مخصوص ایک میت سوزی کے مقام پر جمع ہوئے۔ اس موقع پر پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری بھی وہاں موجود تھی۔

7 نومبر سے اب تک تونگرن ضلع میں سات افراد چینی حکمرانی کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں خود سوزی کرچکے ہیں۔ اس علاقے میں تعینات چینی پولیس کی تعداد میں بھی حالیہ ہفتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

خود سازی کرنے والوں کے سات اظہار یکجتہی کے لیے ایک مظاہرے کی تصویر


خود سوزی کرنے والے مظاہرین کے لیے گزشتہ ہفتے اس خطے میں تبت کے باشندوں نے بڑے بڑے دعائیہ اجتماعات منعقد کیے تھے۔

تبتی ذرائع کے مطابق چین میں تبت کے علاقوں میں 2009ء سے اب تک احتجاجاََ خود سوزی کرنے کے 75 واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے 60 افراد کی موت واقع ہوچکی ہے۔

تبتیوں کی ایک بڑی تعداد چینی حکومت پر اُن کے مذہب اور ثقافت کوکچلنے کا الزام عائد کرتی ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ تبت کے لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور پسماندہ تبتی علاقوں میں چینی سرمایا کاری کی بدولت اُن کا معیار زندگی بہتر ہورہا ہے۔

بیجنگ کا الزم ہے کہ تبت میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے کے لیے جلاوطن تبتی روحانی پیشوا دلائی لاما اس خطے کے باشندوں کو خود سوزی پر اُکسا رہے ہیں۔

جاپان کے دورے کے دوران پیر کو دیے گئے بیان میں دلائی لاما نے کہا تھا کےاُنھیں مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے چین کو اِن خودسوزیوں کی’’ سنجیدہ تحقیقات‘‘ کرنی چاہیئں۔