امریکی جریدے 'ٹائم' نے کراچی کی حالت زار پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب شہر پر کیا بیت رہی ہے۔
کراچی —
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کروڑوں افراد یہاں بستے ہیں۔ کبھی یہ شہر ملک کی ترقی کا ضامن ہوا کرتا تھا مگر آج لگتا ہے کہ اس کی یہ حیثیت بدل رہی ہے۔ کل تک یہی شہر روشنیوں کا مسکن کہلاتا تھا مگر آج یہ ہردن نو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہا ہے۔ 'جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر' جیسے شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں، جہاں 24گھنٹے بجلی کی فراہمی انتظامی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے وہاں بھی دیو ہیکل جنریٹرز رکھنا لازمی ہوگیا ہے۔
امریکی رسالے 'ٹائم' نے کراچی کی حالت زار پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب شہر پر کیا بیت رہی ہے۔
رسالے نے لکھا ہے کہ شہر کی ابتر صورتِ حال کا اندازہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی وارڈ کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جو شہر کا آئینہ دار ہے۔
رپورٹ کے مطابق” یکم جنوری 2013ء کا واقعہ ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک جرائم پیشہ افراد کے دو گروپوں کے کچھ لوگ اندر داخل ہوئے اور انہوں نے ایمرجنسی وارڈ تک کا خیال نہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ اس کے بعد ہر طرف خوف اور موت کے سائے تھے۔
اس واقعے سے تین سال قبل اسپتال کی عمارت کے پاس کھڑی ایک موٹر سائیکل میں نصب بم اچانک پھٹ گیا تھا جس سے 18افراد موت کا نوالا بن گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جب شہر کا سب سے بڑا اسپتال ہی پرتشدد واقعات اور جرائم پیشہ افراد کی دسترس سے بچ نہیں سکا تو پھر پورے شہر کے حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے جب ایک خودکش بمبار اچانک اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا اور زور زور سے چلانے لگا کہ اس کے سینے پر دستی بم بندھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ پورا وارڈ آنا فانا خالی ہوگیا۔
اسپتال کے ایکسیڈنٹ اینڈ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے ”اسپتال کے دروازے پر کچھ بندوق بردار گارڈ کھڑے رہتے ہیں لیکن انہیں دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کی تربیت کبھی نہیں دی گئی۔“
کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے ڈکیتی کی وارداتیں، اغواکے واقعات، دہشت گردی اور قتل و غارت گری یہاں کی پہچان بن گئی ہے۔ ان جرائم کے سبب شہر میں غربت اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شہر بھر میں نو گو ایریاز ہیں جہاں جرائم پیشہ افراد کی آزادانہ آمد و رفت رہتی ہے۔ لیکن ان علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق سن 2012ء میں کراچی میں جرائم ریکارڈ حد تک بڑھ گئے۔ اس سال 2500 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد سن 2011ء کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ تھی۔ رواں سال ہوسکتا ہے یہ ریکارڈ بھی توٹ جائے کیوں کہ نصف سال گزرنے تک 1700 افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔
ستمبر کے شروع میں نو منتخب حکومت کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کے لئے پولیس اور رینجرز کو شہر کے حساس علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت دی۔ اکیس ستمبر کو صوبے کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے بیان دیا کہ شہر میں آپریشن کے ابتدائی دو ہفتوں میں 1600 چھاپے مارے گئے جن کے دوران 1800مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔
گرفتار ہونے والے افراد میں عسکریت پسند، ٹارگٹ کلرز اور اغوا برائے تاوان کے کیسز میں مطلوب افراد شامل ہیں۔
کراچی آپریشن سے قبل قومی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کے مسودے کی منظوری دی تھی جس کا مقصدقانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی میں پھیلی بدامنی روکنے کے لئے خصوصی اختیارات دینا تھا۔
'ٹائم' نے لکھا ہے کہ ان خصوصی اختیارات کے باوجود اگر کراچی آپریشن ناکام ہوجاتا ہے تو یہ مزید بھیانک صورتحال ہوگی کیوں کہ کراچی کے امن کو مزید بگڑنے سے بچانے کا یہ غالباً آخری غیر فوجی طریقہ ہے ۔
امریکی رسالے 'ٹائم' نے کراچی کی حالت زار پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب شہر پر کیا بیت رہی ہے۔
رسالے نے لکھا ہے کہ شہر کی ابتر صورتِ حال کا اندازہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی وارڈ کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جو شہر کا آئینہ دار ہے۔
رپورٹ کے مطابق” یکم جنوری 2013ء کا واقعہ ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک جرائم پیشہ افراد کے دو گروپوں کے کچھ لوگ اندر داخل ہوئے اور انہوں نے ایمرجنسی وارڈ تک کا خیال نہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ اس کے بعد ہر طرف خوف اور موت کے سائے تھے۔
اس واقعے سے تین سال قبل اسپتال کی عمارت کے پاس کھڑی ایک موٹر سائیکل میں نصب بم اچانک پھٹ گیا تھا جس سے 18افراد موت کا نوالا بن گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جب شہر کا سب سے بڑا اسپتال ہی پرتشدد واقعات اور جرائم پیشہ افراد کی دسترس سے بچ نہیں سکا تو پھر پورے شہر کے حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے جب ایک خودکش بمبار اچانک اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا اور زور زور سے چلانے لگا کہ اس کے سینے پر دستی بم بندھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ پورا وارڈ آنا فانا خالی ہوگیا۔
اسپتال کے ایکسیڈنٹ اینڈ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے ”اسپتال کے دروازے پر کچھ بندوق بردار گارڈ کھڑے رہتے ہیں لیکن انہیں دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کی تربیت کبھی نہیں دی گئی۔“
کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے ڈکیتی کی وارداتیں، اغواکے واقعات، دہشت گردی اور قتل و غارت گری یہاں کی پہچان بن گئی ہے۔ ان جرائم کے سبب شہر میں غربت اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شہر بھر میں نو گو ایریاز ہیں جہاں جرائم پیشہ افراد کی آزادانہ آمد و رفت رہتی ہے۔ لیکن ان علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق سن 2012ء میں کراچی میں جرائم ریکارڈ حد تک بڑھ گئے۔ اس سال 2500 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد سن 2011ء کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ تھی۔ رواں سال ہوسکتا ہے یہ ریکارڈ بھی توٹ جائے کیوں کہ نصف سال گزرنے تک 1700 افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔
ستمبر کے شروع میں نو منتخب حکومت کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کے لئے پولیس اور رینجرز کو شہر کے حساس علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت دی۔ اکیس ستمبر کو صوبے کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے بیان دیا کہ شہر میں آپریشن کے ابتدائی دو ہفتوں میں 1600 چھاپے مارے گئے جن کے دوران 1800مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔
گرفتار ہونے والے افراد میں عسکریت پسند، ٹارگٹ کلرز اور اغوا برائے تاوان کے کیسز میں مطلوب افراد شامل ہیں۔
کراچی آپریشن سے قبل قومی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کے مسودے کی منظوری دی تھی جس کا مقصدقانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی میں پھیلی بدامنی روکنے کے لئے خصوصی اختیارات دینا تھا۔
'ٹائم' نے لکھا ہے کہ ان خصوصی اختیارات کے باوجود اگر کراچی آپریشن ناکام ہوجاتا ہے تو یہ مزید بھیانک صورتحال ہوگی کیوں کہ کراچی کے امن کو مزید بگڑنے سے بچانے کا یہ غالباً آخری غیر فوجی طریقہ ہے ۔