بشار الاسد کا 24 سالہ دورِ اقتدار؛ کب کیا ہوا؟

سترہ جولائی 2000 کو بشار الاسد اپنے والد کے انتقال کے بعد شام کے نئے سربراہ بنے تھے۔

ویب ڈیسک -- بشار الاسد کا لگ بھگ 24 سالہ دورِ اقتدار اتوار کو باغیوں کے دمشق پر قبضے کے بعد ختم ہو گیا۔ روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق بشار الاسد ملک سے فرار ہونے کے بعد ماسکو پہنچ گئے ہیں۔

بشار الاسد کے اقتدار کے 24 سال میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ آئیے جانتے ہیں، اس ٹائم لائن میں۔۔

2000: والد کے بعد اقتدار سنبھالا

سترہ جولائی 2000 کو بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد شام کے نئے سربراہ بنے۔

بشار الاسد نے 98 فی صد ووٹ لے کر ریفرنڈم جیتا تھا جس میں وہی واحد امیدوار تھے۔

پارلیمنٹ نے بشارالاسد کے صدر بننے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان کے والد کی وفات کے دن ہی آئین میں ترمیم کر کے صدر کے لیے عمر کی کم از کم حد میں کمی کی تھی۔

شام کی حکمران جماعت بعث پارٹی نے ان کے والد کی وفات کے فوراً بعد ہی بشار کو افواج کا کمانڈر انچیف بھی نامزد کر دیا تھا۔

2000: دمشق اسپرنگ

ستمبر 2000 میں 100 دانش وروں نے مارشل لا ختم کرنے اور سیاسی آزادیوں کا مطالبہ کیا۔ اسے دمشق بہار کا نام دیا گیا تھا۔ شام میں 1963 سے مارشل لا نافذ تھا۔

اسد حکومت نے مخالف آوازوں کے خلاف جولائی 2001 میں کریک ڈاؤن شروع کیا جب 10 مخالفین کو گرفتار کیا گیا۔

2005: لبنان سے انخلا

فروری 2005 میں لبنان کے سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری بیروت میں بم حملوں میں قتل ہو گئے۔ بڑی مغربی قوتوں اور لبنان کی اپوزیشن نے اس کا الزام شام پر لگایا جس کی فورسز بڑی تعداد میں لبنان میں موجود تھیں اور فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کیا۔ دمشق نے اس کی ذمے داری سے انکار کیا۔

اپریل میں ہزاروں فوجیوں نے لبنان سے انخلا کیا اور شام کی لبنان میں 29 سالہ فوجی اور سیاسی برتری ختم ہو گئی۔

2005: دمشق اعلامیہ

اکتوبر 2005 میں، اپوزیشن جماعتوں نے 'دمشق اعلامیہ' کے نام سے ایک مشترکہ تحریک شروع کی جس میں انقلابی اور جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا اور 'آمرانہ طرز کے فرقہ وارانہ نظام' پر تنقید کی گئی۔

حکومت نے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور پھر دسمبر 2008 میں جمہوریت کے حامی مخالفین کی گرفتاریوں کی ایک نئی لہر آئی۔

2011: بغاوت اور خانہ جنگی

مارچ 2011 میں عرب بہار کے دوران، جب لوگ عرب ممالک میں آمرانہ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو شام میں بھی شہری آزادیوں اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبے کے ساتھ مظاہرے ہونے لگے۔

شامی حکومت نے ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے سخت کریک ڈاؤن کیا اور مظاہرین کو دہشت گرد قرار دیا۔ بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور پھر مسلح بغاوت کا آغاز ہوا جو بعد ازاں مکمل خانہ جنگی میں بدل گئی۔ اس میں پھر متعدد علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں اور جہادی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں۔

سن 2012 میں حکومت نے باغیوں کے خلاف فضائی حملوں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا۔ شامی حکومت پر کئی مواقع پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام بھی لگتا رہا ہے جسے وہ مسترد کرتی رہی ہے۔

بشار الاسد کو روس، ایران اور اس کی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کی حمایت اور مدد حاصل تھی جس کے باعث انہوں نے باغیوں کے قبضے میں جانے والے اپنے کئی علاقے دوبارہ حاصل کر لیے۔

مارچ 2020 میں روس اور ترکیہ کے درمیان ایک معاہدے کے بعد شام میں جنگ بندی کا اعلان ہوا لیکن ملک میں حملے اور بمباری کے واقعات ہوتے رہے۔

اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے، ملک کی جنگ سے پہلے کی نصف زیادہ آبادی بے گھر ہو گئی اور اسد کو عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔

2021: چوتھی مدت

چھبیس مئی 2021 کو اسد چوتھی مدتِ صدارت کے لیے 95 فی صد ووٹ حاصل کر کے منتخب ہوئے۔

2023: عرب کے سفارتی محاذ پر واپسی

شام نے مئی 2023 میں دوبارہ عرب لیگ جوائن کر لی جس کے بعد بشار الاسد نے ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد اس کے اجلاس میں پہلی بار حصہ لیا۔ شام کو 2011 میں مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے جواب میں عرب لیگ سے نکال دیا گیا تھا۔

2023: بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری

نومبر 2023 میں فرانس نے بشار الاسد کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ فرانس کے یہ وارنٹ شام میں 2013 میں کیمیکل حملوں جیسے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے شبہے میں جاری کیے تھے جن کا الزام شام کی حکومت پر لگتا رہا ہے۔

اس کے اگلے ہی روز عالمی عدالتِ انصاف نے شام کو حکم دیا کہ تشدد اور ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک ختم کیا جائے۔

2023: باغیوں کی کامیابیاں

ستائیس نومبر کو باغیوں کی قیادت کرنے والے گروپ 'ہیئت تحریر الشام' نے حملہ کیا اور اسد کی فوج سے دوسرے شہر حلب کا کنٹرول چھین لیا۔

اس کے بعد باغی تیزی سے آگے بڑھتے گئے اور حما اور حمص جیسے کئی شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور بالآخر اتوار کو دمشق کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔