اعلیٰ امریکی اور چینی سفارت کاروں نے بدھ کو دو طرفہ تعلقات میں حالیہ پیش رفت کو جاری رکھنے اور غزہ میں اسرائیل اور حماس کے تنازع کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی اور امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ٹیلی فون کال میں گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان سان فرانسسکو میں برسوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیا جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔
SEE ALSO: افغانستان کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات سے پہلے طالبان کو اصلاحات کرنی ہوں گی، چینچین کی وزارت خارجہ کے مطابق چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اس وقت فریقین کے لیے اہم کام سان فرانسسکو اجلاس کے مثبت اثرات کو برقرار رکھنا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق بلنکن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فریقین کو سربراہی اجلاس میں ہونے والی پیش رفت کو آگے بڑھانا چاہیے۔
صدر جو بائیڈن اور صدر شی جن پنگ نے اپنی ملاقات میں رابطے کے ذرائع کو کھلا رکھنے اور دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم اس کے باوجود، دونوں ملکوں کے درمیان بڑے سیاسی اختلافات ابھی حل ہونے سے دور ہیں۔
وانگ اور بلنکن نے اسرائیل-حماس جنگ پر بھی تبادلۂ خیال کیا، جہاں چین مذاکرات میں کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ بدھ کو چین نے اقوامِ متحدہ کو تنازع کے خاتمے کے لیے ایک چار نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا، لیکن منصوبے میں تفصیلات موجود نہیں تھیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ دوڑ میں شامل نہ ہوتے تو شاید دوبارہ صدارتی الیکشن نہ لڑتا: صدر بائیڈنبلنکن نے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر یمن کے حوثی باغیوں کے حالیہ حملوں کو بھی اٹھایا، جو کہ غزہ کی جنگ کے حوالے سے، مشرق وسطیٰ میں بحری حملوں کے سلسلے میں اضافہ ہے، اور کہا کہ تنازع کو پھیلنے سے روکنا ضروری ہے۔
وانگ نے کہا کہ غزہ کے بحران کے کسی بھی حل کے لیے دو ریاستی انتظامات کی ضرورت ہے جو فلسطینی عوام کی خواہشات کی عکاسی کرے۔
چین کی وزارت خارجہ کے مطابق، وانگ نے کہا کہ چین کا خیال ہے کہ حل کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کے لیے اپنی ایک ریاست اور خود ارادیت کے حق کا احترام کرنا ہے۔
وانگ نے سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کو خراج عقیدت پیش کیا جو گزشتہ ماہ انتقال کر گئے تھے۔ کسنجر نے صدر رچرڈ نکسن کے دور صدارت میں امریکہ اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُنہوں نے رواں برس جولائی میں بھی بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔
وانگ نے کہا کہ کسنجر نے جو سفارتی میراث چھوڑی ہے وہ اس قابل ہے کہ آنے والی نسلیں اسے فروغ دیں اور آگے بڑھائیں۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔