امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں دہشت گرد گروپ دوبارہ سر اُٹھا سکتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے 'فوکس نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل مارک ملی نے کہا کہ "افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس تناظر میں میرا عسکری تجربہ کہتا ہے کہ ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔"
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا طالبان جنہوں نے ابھی تک حکومت کا اعلان نہیں کیا وہ مضبوط اقتدار اور مؤثر حکمرانی کے قابل ہوں گے؟
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے رپورٹ کیا کہ جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ "مجھے لگتا ہے کہ وہاں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا زیادہ امکان ہے اور اس کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا ہوں گے جو حقیقت میں القاعدہ کی تشکیل نو یا داعش یا دیگر دہشت گروپس کے پروان چڑھنے کا سبب بن سکتے ہیں۔"
SEE ALSO: پنج شیر پر قبضے کی اطلاعات پر کابل میں طالبان کا جشن، ہوائی فائرنگ سے 17 افراد ہلاکجنرل مارک ملی نے کہا کہ افغانستان میں ایسے حالات جنم لے سکتے ہیں جس میں آئندہ 12، 24 یا 36 مہینوں کے اندر آپ اس خطے میں دہشت گردی کو دوبارہ پنپتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنی پیش قدمی تیز کر دی تھی۔ البتہ توقعات کے برعکس طالبان نے 15 اگست کو کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا جس کے بعد غیر ملکی فورسز اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد کے انخلا میں تیزی آئی تھی۔
کابل پر کنٹرول کے باوجود طالبان کو اب بھی شمالی افغانستان کے صوبے پنجشیر میں مزاحمت کا سامنا ہے اور اطلاعات کے مطابق وہاں اب بھی لڑائی جاری ہے۔
امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو یہ خدشہ ہے کہ فورسز کے انخلا کے بعد کہیں افغانستان دوبارہ ایسے دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بن جائے جو دیگر ممالک پر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
البتہ امریکی حکام یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر افغان سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال ہوئی تو امریکہ غیر معمولی ردِعمل دے گا۔
البتہ طالبان یہ یقین دہانی کراتے رہے ہیں کہ وہ کسی کو بھی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
خیال رہے کہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد نوے کی دہائی میں بھی افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی جس میں ہزاروں افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
اس خبر میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔