امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے کو فوری طور پر منسوخ کرنے سے ’’بحران‘‘ پیدا ہوسکتا ہے، اور یہ کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا انداز اپنایا جائے گا۔
جمعے کے روز ’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کی جانب سے منعقد کردہ ناشتے کی نشست پر اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، سینیٹر بوب کورکر نے کہا ہے کہ ’’میرے خیال میں، اسے بالکل ہی ادھیڑ کر رکھ دینا مناسب نہ ہوگا۔ برعکس اِس کے، ہمیں بنیادی طور پر اِس کے نفاذ پر زور دینا ہوگا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ جولائی 2015ء میں اعلان کردہ اِس بین الاقوامی سمجھوتے پر سختی سے نفاذ ہوگا، جس پر ایران اپنی معیشت کے خلاف نقصان دہ تعزیرات سے بچنے کےعوض اپنے جوہری پروگرام میں کٹوتی لانے پر رضامند ہوا۔
ٹرمپ کئی بار اپنا یہ عہد دہرا چکے ہیں کہ اُن کے دورہٴ حکومت میں ایران کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کو ختم کر دیا جائے گا، جس معاملے پر تشویش بڑھی ہے کہ ایران غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام ہوگا، اور اُن کی معیشت کو دھچکہ لگے گا۔
کورکر کے بقول، ’’میرے خیال میں، سمجھداری پر مبنی انداز یہ ہوگا کہ آپ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں؛ اور آپ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اور سمجھوتا ٹوٹنے کی صورت میں، اِس کا وہی ذمہ دار ہوگا جو اِسے توڑے گا، ناکہ ایک صدر، جو عہدے پر فائز ہونے کے پہلے ہی روز ایسا عمل کرے کہ سمجھوتا ٹوٹ جائے‘‘۔
امریکی کانگریس کے ہر ایک ری پبلیکن رُکن نے، جن میں کورکر شامل ہیں، امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، چین، جرمنی اور ایران کی جانب سے جوہری معاہدے پر دستخط کے عمل کے خلاف اعتراض کیا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے درجنوں ارکان نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ لیکن، گذشتہ سال جنوری میں اس پر عمل درآمد روکنے کے مخالفین کے مقابلے میں حق میں حمایت زیادہ تھی۔
تاہم، صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران، ٹرمپ نے سمجھوتے کو ختم کرنے کی دھمکی دی تھی؛ حالانکہ، دیگر لمحات میں اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ بہتر سمجھوتے کے حصول کی کوشش کریں گے۔
اوباما انتظامیہ اور جوہری معاہدے کے دیگر حامی کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے معاہدے سے پھر جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ کے دیگر ساتھی مایوس ہوجائیں، جنھوں نے بھی اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں، جب کہ ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینے سے عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
کورکر نے کہا کہ امریکہ کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ سمجھوتے پر سختی سے نفاذ کو یقینی بنائے، نا کہ آتے ہی اِسے پرزہ پرزہ کر دے۔ بقول اُن کے، ’’یا پھر ایسا عمل کیا جائے، جس سے بحرانی کیفیت پیدا ہو‘‘۔
کورکر نے ’’دھیرج سے کام لینے‘‘ کا انداز اپنانے پر زور دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’باوجود اِس بات کے کہ سمجھوتے میں کئی خامیاں ہیں، اِس کے برے نتائج برآمد نہیں ہوں گے، برعکس اس کے کہ اگلے چند برسوں کے اندر ایران جوہری میدان میں من مانی کرتا پھرے۔ ہرگز، ایسا نہیں ہونا چاہیئے‘‘۔