ماحولیات پر نظر رکھنے والے ماہرین کو تشویش ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ایک بڑی آبادی کوڑے کرکٹ کے پاس رہتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان ممالک میں کئی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔
واشنگٹن —
ایک تحقیقی جائزے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں غریب افراد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس رہنے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں صحت کے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے پاس رہنے سے وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی عوارض کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس کی وجہ کوڑا کرکٹ والی جگہوں پر زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔
نیویارک میں ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم نے اس رپورٹ کے لیے بھارت، انڈونیشیا اور پاکستان میں 373 مختلف جگہوں سے پانی اور مٹی کے نمونے حاصل کیے۔ ان تینوں ممالک کی کل آبادی تقریبا ڈیڑھ ارب لوگوں سے زیادہ ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا تقریبا پانچواں حصہ ہے۔
اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010ء میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے نزدیک رہنے پر مجبور تھے۔
اس رپورٹ کے ایک تحقیق دان رچرڈ فُلر کہتے ہیں کہ، ’سیسہ، لوہا، فاسفیٹ اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘ رچرڈ فلر کا تعلق بلیک سمتھ انسٹی ٹیوٹ سے ہے جس نے اس تحقیق کے لیے فنڈز مہیا کیے۔
رچرڈ فُلر اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق سے نتائج نکلے کہ جن ترقی پذیر ملکوں میں آبادیاں کچرے کے ڈھیر کے پاس رہتی ہیں وہاں پر ملیریا اور فضائی آلودگی جیسے مسائل بہت عام ہیں۔
اس سروے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان تینوں ممالک میں رہنے والی آبادیوں میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم ِ مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشونما کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
نیویارک میں ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم نے اس رپورٹ کے لیے بھارت، انڈونیشیا اور پاکستان میں 373 مختلف جگہوں سے پانی اور مٹی کے نمونے حاصل کیے۔ ان تینوں ممالک کی کل آبادی تقریبا ڈیڑھ ارب لوگوں سے زیادہ ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا تقریبا پانچواں حصہ ہے۔
اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2010ء میں ان ممالک میں اسی لاکھ ساٹھ ہزار افراد کچرے کے نزدیک رہنے پر مجبور تھے۔
اس رپورٹ کے ایک تحقیق دان رچرڈ فُلر کہتے ہیں کہ، ’سیسہ، لوہا، فاسفیٹ اور دیگر کئی طرح کے کیمیکلز صحت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘ رچرڈ فلر کا تعلق بلیک سمتھ انسٹی ٹیوٹ سے ہے جس نے اس تحقیق کے لیے فنڈز مہیا کیے۔
رچرڈ فُلر اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق سے نتائج نکلے کہ جن ترقی پذیر ملکوں میں آبادیاں کچرے کے ڈھیر کے پاس رہتی ہیں وہاں پر ملیریا اور فضائی آلودگی جیسے مسائل بہت عام ہیں۔
اس سروے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان تینوں ممالک میں رہنے والی آبادیوں میں سیسے کا تناسب زیادہ پایا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ زہریلا مادہ انسان کے خون میں جذب ہو جائے تو اس سے رحم ِ مادر میں بچوں کو مسائل درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ بچوں کی ذہنی نشونما کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔