بچوں میں مقبول کھلونا بندوقیں ان میں پرتشدد رجحان پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ حادثات کا سبب بھی بن رہی ہیں۔
واشنگٹن —
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں جہاں اصلی ہتھیار ایک بڑا مسئلہ ہیں، وہیں اب بچوں میں مقبول کھلونا بندوقیں بھی ان میں پرتشدد رجحان پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ حادثات کا سبب بھی بن رہی ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بچوں کے شعبے کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ مہناز اس صورتِ حال کو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہونے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو بچے آج کھلونا بندوقیں استعمال کر رہے ہیں، کل ان میں اصلی بندوقیں استعمال کرنے کا شوق پیدا ہوسکتا ہے۔ ان کے بقول جتنا تشدد یہ بچے فلموں اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور جو ملک کے حالات ہیں اس کے پیشِ نظر یہ خدشہ موجود ہے کہ جو بچے آج کھلونا بندوقیں اٹھا رہے ہیں وہ کل کلاں کو اصلی بندوق بھی اٹھالیں۔
'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر صاحبہ نے کہا کہ بچے ایک دوسرے پر ان کھلونا بندوقوں سے فائر کرتے ہیں اور کچھ کو ان کے چھرے آنکھوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بچوں کی آنکھیں تک چلی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے بھی ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں لیکن اب اس طرح کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے پیشِ نظر حکومت کو ان کھلونا ہتھیاروں پر پابندی لگادینی چاہیے۔
کراچی میں ٹھیلے پر کھلونا بندوقیں بیچنے والے محمد اکبر نے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں میں ان کھلونا بندوقوں کا جنون کی حد تک شوق پایا جاتا ہے۔
ان کے بقول، "ان بندوقوں کے چکر میں بچے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ اتنا بکتی ہیں کہ ایک ایک ٹھیلے والا مہینے کا دو سے تین لاکھ کا مال بیچ دیتا ہے، خود میں نے رمضان میں تین چار لاکھ کا مال بیچا ہے"۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان کھلونا بندوقوں کی فروخت ٹھیک ہے؟ محمد اکبر نے کہا، " کیا کریں؟ بکتا ہی یہ ہے۔ میں پہلے دوسرے کھلونے بیچتا تھا لیکن اگر گاہک یہی مانگے گا تو میں کیا کروں؟ پبلک مانگتی ہے تو ہم مجبور ہیں، ہم نہیں بیچیں گے تو وہ کہیں اور سے خرید لے گا لیکن اگر حکومت اس کے بنانے اور باہر سے درآمد کرنے پر پابندی لگا دے تو نہ کوئی خریدے گا اور نہ کوئی بیچے گا"۔
اکبر کہتے ہیں کہ وہ یہ بندوقیں خوشی سے نہیں بیچتے کیوں کہ ان سے بچے ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ بعض اوقات اس کے چھرے آنکھ میں بھی لگ جاتے ہیں۔
اکبر کے ٹھیلے پر موجود ایک خاتون خریدار کا کہنا تھا کہ ان کا بچہ دوسرے بچوں کے پاس یہ بندوقیں دیکھ کر ضد کرتا ہے لہذا انہیں بھی یہ خریدنی پڑ رہی ہے۔
لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ جہاں اصلی ہتھیار کھلونوں کی طرح استعمال ہو رہے ہوں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو تو وہاں ان کھلونا ہتھیاروں پر کوئی کیا پابندی لگائے گا!
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بچوں کے شعبے کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ مہناز اس صورتِ حال کو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہونے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو بچے آج کھلونا بندوقیں استعمال کر رہے ہیں، کل ان میں اصلی بندوقیں استعمال کرنے کا شوق پیدا ہوسکتا ہے۔ ان کے بقول جتنا تشدد یہ بچے فلموں اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور جو ملک کے حالات ہیں اس کے پیشِ نظر یہ خدشہ موجود ہے کہ جو بچے آج کھلونا بندوقیں اٹھا رہے ہیں وہ کل کلاں کو اصلی بندوق بھی اٹھالیں۔
'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر صاحبہ نے کہا کہ بچے ایک دوسرے پر ان کھلونا بندوقوں سے فائر کرتے ہیں اور کچھ کو ان کے چھرے آنکھوں میں لگ جاتے ہیں جن سے بچوں کی آنکھیں تک چلی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے بھی ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں لیکن اب اس طرح کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے پیشِ نظر حکومت کو ان کھلونا ہتھیاروں پر پابندی لگادینی چاہیے۔
کراچی میں ٹھیلے پر کھلونا بندوقیں بیچنے والے محمد اکبر نے 'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں میں ان کھلونا بندوقوں کا جنون کی حد تک شوق پایا جاتا ہے۔
ان کے بقول، "ان بندوقوں کے چکر میں بچے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ اتنا بکتی ہیں کہ ایک ایک ٹھیلے والا مہینے کا دو سے تین لاکھ کا مال بیچ دیتا ہے، خود میں نے رمضان میں تین چار لاکھ کا مال بیچا ہے"۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان کھلونا بندوقوں کی فروخت ٹھیک ہے؟ محمد اکبر نے کہا، " کیا کریں؟ بکتا ہی یہ ہے۔ میں پہلے دوسرے کھلونے بیچتا تھا لیکن اگر گاہک یہی مانگے گا تو میں کیا کروں؟ پبلک مانگتی ہے تو ہم مجبور ہیں، ہم نہیں بیچیں گے تو وہ کہیں اور سے خرید لے گا لیکن اگر حکومت اس کے بنانے اور باہر سے درآمد کرنے پر پابندی لگا دے تو نہ کوئی خریدے گا اور نہ کوئی بیچے گا"۔
اکبر کہتے ہیں کہ وہ یہ بندوقیں خوشی سے نہیں بیچتے کیوں کہ ان سے بچے ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ بعض اوقات اس کے چھرے آنکھ میں بھی لگ جاتے ہیں۔
اکبر کے ٹھیلے پر موجود ایک خاتون خریدار کا کہنا تھا کہ ان کا بچہ دوسرے بچوں کے پاس یہ بندوقیں دیکھ کر ضد کرتا ہے لہذا انہیں بھی یہ خریدنی پڑ رہی ہے۔
لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ جہاں اصلی ہتھیار کھلونوں کی طرح استعمال ہو رہے ہوں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو تو وہاں ان کھلونا ہتھیاروں پر کوئی کیا پابندی لگائے گا!