پاکستان میں صنعت کاروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیم ’فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ (ایف پی سی سی آئی) کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کسی مسئلے حل نہیں۔
صدر ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے وقت پاکستان کو بھی ملک میں دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کی موجودگی پر ہدف تنقید بنایا گیا تھا۔
جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں کچھ ٹھہراؤ آیا ہے اور دوطرفہ سفارتی دورے میں موخر کیے گئے ہیں۔
امریکہ کیوں کہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اس لیے دوطرفہ تعلقات میں اس ٹھہراؤ پر کاروباری حلقے بھی پریشان ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر عامر عطا باجوہ نے امریکہ روانگی سے قبل وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر دونوں ممالک کی کارروباری برادری کے درمیان تعاون جاری رہے گا تو اُن کے بقول دوطرفہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
’’میں گریٹر نیویارک چیمبر آف کامرس کی دعوت پر جا رہا ہوں۔ وہاں میرا 15 تاریخ کو بزنس کمیونٹی سے خطاب بھی ہے اور میں تو انھیں بھی کہوں گا کہ بزنس ریلیشنز کو ہمیشہ سیاسی تعلقات سے علیحدہ رکھنا چاہیے۔ سیاسی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔۔۔ کبھی (تعلقات) اچھے ہو جاتے ہیں کبھی تھوڑے سے کمزور ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے کبھی بھی بزنس ریلیشنز آپس میں ختم نہیں کرنے چاہئیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ تجارتی اور کاروباری رابطے ممالک کے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے اُن کے بقول فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری امریکی کاروباری براداری کے وفود کو پاکستان مدعو کرنا چاہتی ہے۔
’’جی میں سمجھتا ہوں کہ جہاں پر آپ کا انٹرسٹ (کاروباری دلچسپی) بڑھتا جائے گی وہاں پر کشیدگی خود بخود کم ہوتی جائے گی۔۔ کاروباری رابطے بڑھنے چاہئیں۔ اس کی وجہ سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے کاروبار کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور جو ملک بزنس پارٹنر (کاروباری شراکت دار) بن جاتے ہیں وہاں پر کشیدگی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔‘‘
عمر عطا باجوہ کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت کار ہے اور اُن کے بقول پاکستان کی کارروباری برداری کی نظر میں امریکہ کی خاص اہمیت ہے۔
’’تعلقات جتنے بہتر ہوں گے اتنی تجارت بڑھتی جائے گی۔ تجارت بڑھے گی تو غلط فہمیاں ختم ہونی شروع ہو جائیں گی ملکوں کے درمیان۔‘‘
واضح رہے کہ ایک روز قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر امریکہ پاکستان پر تعزیرات عائد کرتا ہے یا فوجی امداد میں کٹوتی کرتا ہے تو پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین اور روس کا رخ کرنے پر مجبور ہو گا۔
شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں خامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی چھ ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر کہہ چکے ہیں کہ عالمی طاقتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرا سکتیں۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے حالیہ بیانات میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان امریکہ سے مالی امداد کو متمنی نہیں بلکہ وہ اعتماد کی بنیاد پر استوار تعلقات چاہتا ہے۔
دریں اثنا امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے پاکستان کے وزیر تجارت پرویز ملک سے منگل کو ملاقات کی جس میں دوطرفہ تجارت سے متعلق اُمور پر بات چیت کی گئی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر تجارت پرویز ملک نے کہا کہ 17-2016 کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت کا حجم چھ ارب ڈالر تھا اور پاکستان امریکہ سے دوطرفہ معاشی اور اقتصادی رابطے بڑھانے کو خواہمشند ہے۔