گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے سے گاوٴ تکیے کا رواج بھی ختم ہوتا جارہا رہے۔ ہوسکتا ہے نئی نسل کے کچھ نوجوان یا بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے اس کے نام سے بھی ناواقف ہوں ۔ یہ تکیے کی وہ قسم ہے جو عام تکیے کی طرح چوکور ہونے کے بجائے گول جسامت کااور غیرمعمولی طور پر بھاری و ’موٹا‘ ہوتا ہے۔یہ عموماً فرشی نشست کے دوران استعمال ہوتا ہے۔ پہلے ہرگھر میں استعمال ہوتا تھا مگر اب شاید کچھ ہی گھروں میں استعمال ہوتا ہو۔
ہوسکتا ہے آپ نے کسی مشاعرے میں مسند پر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے شاعروں کو گاوٴ تکیے سے ٹیک لگائے دیکھا ہو۔ پرانی یا ’بلیک اینڈ وائٹ‘ فلموں میں سود پر روپیہ ادھار دینے والے ساہوکار کے منشی کو بھی گاوٴ تکیے لگائے جمع تفرق کرتے دیکھا ہوکہ اب گاوٴ تکیے کے درشن اسی طرح ممکن ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ایک دور میں لڑکی کے جہیز میں کچھ آئے نہ آئے دو چار گاوٴ تکیے ضرور آتے تھے۔
کسی زمانے میں صحن میں کھڑے تناور درخت کے نیچے دوپہر کے وقت بان والی کوری چارپائی پر گاوٴ تکئے کے ساتھ ٹیک لگاکر حقہ پیا جاتا تھا اور پھر اسی پرٹیک لگاکر گرمیوں کی دوپہر میں قیلولہ بھی کرلیا جاتا تھا، مگر اب وہ دن ہوا ہوئے۔اب چار پائی کا استعمال کو ’اولڈ فیشن ‘ کے سبب چھوٹ گیا جبکہ چھوٹے چھوٹے فلیٹس میں لکڑی کے تخت اور ان کے سرہانے رکھا گاوٴ تکیہ بھی بھلا کیوں کراستعمال ہوگا ۔
بھلا ہو کراچی کے کچھ ہوٹل مالکان کا جنہوں نے پرانی ثقافت کو کسی حد تک زندہ کرنے کے لئے اپنے ہوٹلوں کے آگے گاہکوں کے لئے تخت ، ان پر کارپٹ اور گاوٴ تکیے لگا دیئے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر ایک خوشگوار احساس جاگتا ہے ۔ بیشتر لوگ تیزی سے ختم ہوتے اس ’ ثقافتی ورثے‘ کا مزہ لینے کے لئے ان ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔
کراچی کے ایک بزرگ شہری طفیل محمد اور ان کی اہلیہ عقیلہ گاوٴ تکیے کے اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے باری باری بتاتے ہیں، ’ہمارے زمانے میں جہیز کے لئے گاوٴ تکیہ کا رواج بہت عام تھا۔ لڑکی والے لڑکی کاجہیز تیار کرتے تو بیل بوٹوں، کڑھائی یا پھر سنہری گوٹا کناری والے گاوٴتکیے کے غلاف تک بنانا نہ بھولتے۔ لڑکیوں کو بنارسی کپڑے کے غلاف بنانے کے لئے خصوصی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ میں نے خود نوجوانی میں سینکڑوں تکیوں کے غلاف بنابناکر دوسروں کو دیئے اور اپنے استعمال میں رکھے ہیں‘۔
پہلے گاوٴ تکیے میں روئی بھری جاتی تھی ، پھر روئی مہنگی ہونے لگی تو لوگ بچوں کے پرانے گرم کپڑوں، سائنر میں چھوٹے ہوجانے ’والوں سوئٹرز ، متروکہ کوٹ یا اسی قسم کے دیگر کپڑے گاوٴ تکیے کے غلافوں میں بھرنے لگے۔ کراچی میں اسی اور نوے کی دھائی تک فوم کے گاوٴ تکیے بھی عام ہوئے مگر اب یہ رواج بہت تیزی سے کم ہورہا ہے‘۔“
آج مدارس کے استاد ،چونکہ فرشی نشست رکھتے ہیں، لہذا وہاں ان کا رواج ہے۔ بلوچستان میں روایتی گھروں کے ڈراینگ رومز میں صوفہ نہیں ہوتا ، آج بھی کمرے کی چاروں دیواروں کے ساتھ ساتھ کارپٹ پر گدے بچھائے جاتے ہیں۔ ان کے کنارے دیوار سے ٹیک لگانے کے لئے زیادہ تر گدی اور کہیں کہیں گاوٴ تکیہ استعمال ہوتا ہے۔
ہوسکتا ہے آپ نے کسی مشاعرے میں مسند پر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے شاعروں کو گاوٴ تکیے سے ٹیک لگائے دیکھا ہو۔ پرانی یا ’بلیک اینڈ وائٹ‘ فلموں میں سود پر روپیہ ادھار دینے والے ساہوکار کے منشی کو بھی گاوٴ تکیے لگائے جمع تفرق کرتے دیکھا ہوکہ اب گاوٴ تکیے کے درشن اسی طرح ممکن ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ایک دور میں لڑکی کے جہیز میں کچھ آئے نہ آئے دو چار گاوٴ تکیے ضرور آتے تھے۔
کسی زمانے میں صحن میں کھڑے تناور درخت کے نیچے دوپہر کے وقت بان والی کوری چارپائی پر گاوٴ تکئے کے ساتھ ٹیک لگاکر حقہ پیا جاتا تھا اور پھر اسی پرٹیک لگاکر گرمیوں کی دوپہر میں قیلولہ بھی کرلیا جاتا تھا، مگر اب وہ دن ہوا ہوئے۔اب چار پائی کا استعمال کو ’اولڈ فیشن ‘ کے سبب چھوٹ گیا جبکہ چھوٹے چھوٹے فلیٹس میں لکڑی کے تخت اور ان کے سرہانے رکھا گاوٴ تکیہ بھی بھلا کیوں کراستعمال ہوگا ۔
بھلا ہو کراچی کے کچھ ہوٹل مالکان کا جنہوں نے پرانی ثقافت کو کسی حد تک زندہ کرنے کے لئے اپنے ہوٹلوں کے آگے گاہکوں کے لئے تخت ، ان پر کارپٹ اور گاوٴ تکیے لگا دیئے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر ایک خوشگوار احساس جاگتا ہے ۔ بیشتر لوگ تیزی سے ختم ہوتے اس ’ ثقافتی ورثے‘ کا مزہ لینے کے لئے ان ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔
کراچی کے ایک بزرگ شہری طفیل محمد اور ان کی اہلیہ عقیلہ گاوٴ تکیے کے اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے باری باری بتاتے ہیں، ’ہمارے زمانے میں جہیز کے لئے گاوٴ تکیہ کا رواج بہت عام تھا۔ لڑکی والے لڑکی کاجہیز تیار کرتے تو بیل بوٹوں، کڑھائی یا پھر سنہری گوٹا کناری والے گاوٴتکیے کے غلاف تک بنانا نہ بھولتے۔ لڑکیوں کو بنارسی کپڑے کے غلاف بنانے کے لئے خصوصی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ میں نے خود نوجوانی میں سینکڑوں تکیوں کے غلاف بنابناکر دوسروں کو دیئے اور اپنے استعمال میں رکھے ہیں‘۔
پہلے گاوٴ تکیے میں روئی بھری جاتی تھی ، پھر روئی مہنگی ہونے لگی تو لوگ بچوں کے پرانے گرم کپڑوں، سائنر میں چھوٹے ہوجانے ’والوں سوئٹرز ، متروکہ کوٹ یا اسی قسم کے دیگر کپڑے گاوٴ تکیے کے غلافوں میں بھرنے لگے۔ کراچی میں اسی اور نوے کی دھائی تک فوم کے گاوٴ تکیے بھی عام ہوئے مگر اب یہ رواج بہت تیزی سے کم ہورہا ہے‘۔“
آج مدارس کے استاد ،چونکہ فرشی نشست رکھتے ہیں، لہذا وہاں ان کا رواج ہے۔ بلوچستان میں روایتی گھروں کے ڈراینگ رومز میں صوفہ نہیں ہوتا ، آج بھی کمرے کی چاروں دیواروں کے ساتھ ساتھ کارپٹ پر گدے بچھائے جاتے ہیں۔ ان کے کنارے دیوار سے ٹیک لگانے کے لئے زیادہ تر گدی اور کہیں کہیں گاوٴ تکیہ استعمال ہوتا ہے۔