|
کھاریاں -- وسطی پنجاب کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں میں پولیس اور خواجہ سراؤں کے درمیان لڑائی کے بعد اتوار کی رات گئے مبینہ طور پر بدسلوکی کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں معطل کردیا گیا ہے۔
پولیس نے تھانے پر حملہ کر کے پتھراؤ کرنے اور پولیس اہلکاروں کی مارپیٹ کرنے والے 27 خواجہ سراؤں کے خلاف مقدمہ درج کر کے تین خواجہ سرا گرفتار کر لیے ہیں۔
یہ واقعہ پنجاب ہی کے ایک ضلع بہاولنگر میں تین ہفتے قبل پاکستانی فوج اور پولیس کے درمیان ہونے والی لڑائی کے بعد سامنے آیا ہے۔ واقعے میں پاکستانی فوج نے مبینہ طور پر بہاولنگر کے ایک تھانے پر دھاوا بول کر پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ کارروائی پولیس کی جانب سے پاکستانی فوج کے اہلکاروں کے گھر پولیس کی ریڈ اور مبینہ طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کے بعد کی گئی تھی۔
خواجہ سرا کے ساتھ مبینہ بدسلوکی
کھاریاں میں پولیس اور خواجہ سراؤں کے درمیان تنازع کا آغاز دو پولیس اہلکاروں کی طرف سے ایک خواجہ سرا کے ساتھ مبینہ بدسلوکی سے شروع ہوا جو کہ بعد ازاں بڑے تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔
حرا سجاد نامی ایک خواجہ سرا کی مدعیت میں تھانہ صدر کھاریاں میں دو پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا کہ کانسٹیبل عمر بلال اور اس کے ساتھی پولیس اہلکار نے اسے ریلوے پھاٹک کے قریب زبردستی روکا اور حبسِ بیجا میں رکھ کر ہراساں کیا۔
گجرات پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دونوں اہلکار ملازمت سے معطل کر دیے گئے ہیں اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
خواجہ سرا حرا سجاد نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے اس کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی تھی جس پر میں نے انہیں روکا تو انہوں نے مجھے تھپڑ مار دیا۔ میرا پیشہ بیوٹیشن ہے۔ لیکن وہ مجھے کسی اور کام کے لیے زور دے رہے تھے جو کہ میں نہیں کر سکتی تھی۔
حرا سجاد کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی اس مبینہ بدسلوکی پر جب اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھانے جا کر شکایت لگائی تو پولیس افسران نے خواجہ سراؤں کی بات سننے سے انکار کیا جس پر گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گردونواح کے خواجہ سرا وہاں اکٹھے ہو گئے جنہوں نے مل کر تھانہ صدر کھاریاں پر دھاوا بول دیا۔
اس واقعے کی جو فوٹیجز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواجہ سرا تھانہ صدر کھاریاں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ کچھ فوٹیجز میں خواجہ سرا تھانے کے اندر جا کر وہاں سے پولیس اہلکاروں کو مارپیٹ کرنے کے بعد تھانے سے باہر لا رہے ہیں اور انہیں زمین پر بٹھا کر معافی مانگنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
پولیس اہلکاروں کے ساتھ مارپیٹ کرنے کے بعد خواجہ سراؤں نے تھانے کا فرنیچر اور دیگر سامان اٹھا کر سڑک پر پھینکا اور جی ٹی روڈ بلاک کردی جس سے لاہور سے اسلام آباد آنے اور جانے والی ٹریفک گھنٹوں متاثر رہی۔
آئی جی پنجاب نے خواجہ سراؤں کے احتجاج کا نوٹس لیا جس پر گجرات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سید اسد مظفر نے دونوں پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
پولیس کی طرف سے ایس ایچ او صدر کھاریاں بلال شاہ نے خواجہ سراؤں سے مذاکرات کیے اور یقین دلایا کہ واقعے کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی اور محکمانہ کارروائی ہو گی۔
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو گا جس پر انہوں نے رات گئے اپنا احتجاج ختم کردیا اور دوسرے شہروں سے آنے والے خواجہ سرا بھی واپس اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔
خواجہ سراؤں کے منتشر ہونے کے بعد پولیس نے رات گئے خواجہ سراؤں کے خلاف بھی قانونی کارروائی شروع کردی اور تھانے پر حملہ کرنے، تھانے میں گھس کر پولیس اہلکاروں کے ساتھ مارپیٹ کرنے والے 27 خواجہ سراؤں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمے میں سات خواجہ سرا نامزد جب کہ 20 نامعلوم خواجہ سرا شامل ہیں۔
مقدمے میں سرکاری عمارت میں توڑ پھوڑ، اسلحہ چھیننے، تھانے پر پتھراؤ کرنے، دو پولیس اہلکاروں کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنانے، پولیس اہلکار سے موبائل چھننے، حبس بیجا میں رکھنے اور سڑک بلاک کرنے کی دفعات بھی شامل ہیں۔
گجرات پولیس ترجمان کے مطابق مقدمے میں گجرات اور کھاریاں کے علاوہ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے خواجہ سرا بھی نامزد کیے گئے ہیں کیوں کہ مختلف شہروں سے خواجہ سراؤں نے یہاں آ کر تھانے پر حملہ کیا تھا۔ حملے کی قیادت نگاہیں نامی خواجہ سرا کر رہا تھا جب کہ حملہ آوروں میں سویٹی، فیصلو، ببل، حرا وغیرہ شامل تھے۔
گجرات پولیس کا دعویٰ ہے کہ تین خواجہ سرا بلبل، حرا اور ببل سجاد حراست میں لے لیے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ
کھاریاں میں پولیس اور خواجہ سراؤں کے درمیان پیش آنے والا واقعہ پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پی ٹی آئی راہنما ڈاکٹر شہباز گل سمیت دیگر نے اس پر اظہارِ خیال کیا۔
صحافی صابر شاکر نے ویڈیو کلپ شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ سانحہ کھاریاں، خواجہ سرائوں نے وہ کام کردیا ہے جو سانحہ بہاولنگر میں ہوا تھا۔
انجینئر محمد عامر نے پوسٹ کی کہ کیا کہ ابھی نو مئی اور سانحہ بہاولنگر کے دکھ سے نکلے نہیں تھے کہ سانحہ کھاریاں رونما ہو گیا۔
سیف شاہ نے لکھا کیا کہ مبارکباد سب پاکستانی قوم کو معاملہ کھاریاں بہت خوش اسلوبی سے حل ہو چکا ہے۔ مزید اس معاملے پر کیچڑ نہ اچھالا جائے۔
ایس پی کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم
گجرات کے تھانہ صدر کھاریاں میں پولیس اور خواجہ سراؤں کے درمیان پیش آنے والے ناخوش گوار واقعہ پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سید اسد مظفر نے ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی قائم کردی ہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق انکوائری کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ واقعے کی تمام پہلوؤں سے شفاف انکوائری کی جائے اور ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔ ڈی پی او گجرات کا کہنا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں جب کہ محکمہ کے لیے بدنامی کا باعث بننے والے پولیس اہلکار بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔