امریکی، پاکستانی اور افغان سیاسی و فوجی نمائندوں پر مشتمل سہ فریقی کور گروپ کا چوتھا اجلاس منگل کو اسلام آبا میں ہوا۔ اجلاس کے بعد دفتر خارجہ میں منگل کی شب ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تینوں ملکوں کے وفود کے سربراہان نے بات چیت کو انتہائی مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام پر تینوں فریق متفق اور اس عمل کو آگے بڑھانے کے عزم پر قائم ہیں۔
افغان وفد کے سربراہ نائب وزیر خارجہ جاوید لودن نے کہا کو وہ مذاکرات میں اس پیغام کے ساتھ شریک ہوئے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوششوں کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان کا ملک امریکہ بالخصوص پاکستان کے تعاون کا مشکور ہے۔ ”افغانوں نے سلامتی کی ذمہ داریاں اپنے ہاتھوں میں لینا کا عمل شروع کردیا ہے لیکن امن کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ بدستور افغانستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے“۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کرنا شروع کردی ہے اور اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اُن کے ملک کو پاکستان سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کا تعاون درکار ہوگا۔
جاوید لودن نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اقتصادی تعاون اور دیگر مشترکہ منصوبوں کو فروغ دینے پر مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔
پاکستانی خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ افغانوں کی قیادت میں افغانستان میں وسیع البنیاد مفاہمتی عمل کی پاکستان بھرپور حمایت کرتا ہے ۔ انھوں سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کو وسعت دینے پر بات چیت کو مثبت اور تعمیر ی قرار دیا۔
امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی ایلچی مارک گراسمن نے اجلاس میں امریکی وفد کی سربراہی کی ۔ انھوں نے مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ کہ افغانستان میں مفاہمتی عمل پر پاکستانی اور افغان حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے اور دو طرفہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کا عزم قابل ستائش ہے۔ اُن کے بقول تینوں ملکوں پر مشتمل کور گروپ کے ان اجلاسوں کے ذریعے افغانستان میں قیام امن کی کوششیں اس عمل میں پاکستان کی اہمیت کا اجاگر کرتی ہیں اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا تعاون اور حمایت جاری رکھے گا۔