افغانستان سے ملحقہ ضلع کرم میں کئی روز تک جاری رہنے والے قبائلی تصادم میں پانچ افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ پیر کو علاقے میں جنگ بندی کے بعد سیکیورٹی فورسز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب قبائلی اضؒلاع میں اراضی کے تنازعے اور دیگر وجوہات کی بنا پر مسلح تصادم ہوا ہے۔ تاہم حالیہ تصادم کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
بعض مقامی قبائلی ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف دور دراز دیہات میں اب بھی فائرنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کی تصدیق وفاقی وزیر ساجد طوری نے بھی کی ہے۔
کرم کے ضلعی پولیس افسر محمد عمران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بوشیرہ گاؤں میں بنگش قبیلے کے دو متحارب گروہوں میں مسلح لڑائی جمعے کو شروع ہوئی تھی جس کے بعد یہ لڑائی لوئر اور اپر کرم کے مختلف اطراف میں پھیل گئی۔
اُنہوں نے کہا کہ سول اور پولیس انتظامیہ نے مقامی قبائلی زعما سے مل کر فریقین میں جنگ بندی کرانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمشن نے اس واقعہ پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں بلکہ بچوں کے اسکول جانے اور شعیہ کمیونٹی کی نقل و حرکت کی آزادی بھی متاثر ہوئی ہے۔
چار روز کی مسلح جھڑپوں میں ہونے والے جانی نقصانات کی متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ اس دوران نو افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے ہیں۔
کرم کے ضلعی پولیس افسر محمد عمران کا کہنا ہے کہ چار روز کی مسلح جھڑپوں میں جو پیر کی صبح تک جاری تھیں، مجموعی طور پر پانچ افراد ہلاک اور 25 سے 30 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں تین کا تعلق ایک اور دو کا دوسرے گروپ سے ہے۔
کرم سے تعلق رکھنے والے صحافی عظمت علیزئی کے مطابق متحارب قبائل کا تعلق دو مذہبی فرقوں سے ہے اور یہ جھڑپیں تری منگل، پیواڑ، پاڑہ چمکنی، سنگینہ اور دیگر دیہات میں بھی ہوئیں۔
صحافی محمد جمیل کے مطابق ان جھڑپوں کے نتیجے میں پورے ضلعے میں تمام تر معاشی اور سماجی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں اور اہم شاہراہیں اور راستے آمدورفت کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔
قبائلی رہنما ملک عطا اللہ نے بتایا کہ متحارب قبائلیوں کے درمیان زمین کے معاملے پر کئی دہائیوں سے تنازع جاری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس تنازعے کے حل کے لیے مختلف اوقات میں کوششیں کی گئیں مگر یہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
اُن کے بقول حکومت اور مصالحتی ادارے کمیٹیوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہے۔
افغانستان سے ملحقہ کرم کے اس قبائلی ضلع میں اہلِ سنت اور اہل تشیع مکتبہ فکر کے قبائل آباد ہیں اور دونوں فرقوں کے درمیان زمینی تنازعات کشیدگی کا باعث بنتے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ چار مئی کو پانچ اسکول اساتذہ بھی اسی زمینی تنازعے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔
SEE ALSO: اساتذہ کا قتل، ضلع کرم میں شیعہ سنی تنازع ہے کیا؟وفاقی وزیر ساجد طوری کہتے ہیں کہ لوئر کرم اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کےنمائندے علی فرقان سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود اپر کرم اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تاحال متحارب گروپوں میں فائرنگ جاری ہے۔
ساجد طوری نے کہا کہ کرم ایجنسی میں مکمل طور پر فائر بندی کے لیے ضلع بھر کے شیعہ سنی قبائل کا جرگہ بلانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ امن قائم رہ سکے۔
انہوں نے بتایا کہ زمین کے تنازع پر ہی 2020 میں انہی قبائلی کےدرمیان جھگڑا ہوا تھا، جو اب بھی حل طلب ہے۔
ساجد طوری کا کہنا تھا کہ اسی تنازع کے نتیجے میں دو ماہ قبل ایک گروہ نے پاڑہ چنار میں چار اساتذہ سمیت سات افراد کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔
ساجد طوری کہتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث اور نامزد افراد کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے کارروائی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں قبائل کے درمیان دوبارہ لڑائی چھڑ گئی ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ انہوں نے صوبائی حکومت سے رابطہ کرکے کمشنر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کو پاڑہ چنار بلالیا ہے اور اگر بات چیت سے حل نہیں نکلتا تو امن کی بحالی کے لیے شرپسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ساجد طوری کہتے ہیں کہ اس کا کوئی مستقل حل حکومت کے پاس نہیں ہے کیوں کہ انضمام کے بعد پولیس اور عدلیہ کا نظام یہاں ناکام ہوگیا ہے اور ریاست کی عمل داری برائے نام ہے۔