'قبائلی علاقوں کا صوبے میں انضمام قبول نہیں کریں گے'

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضام کے لیے جہاں سیاسی سطح پر بھرپور کوششیں جاری ہیں تو وہیں قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد اور مرکزی حکومت کی دو حلیف جماعتیں ان کوششوں کی مخالفت بھی کر رہی ہے۔

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین اور مختلف راہنماؤں پر مشتمل فاٹا گرینڈ الائنس اور فاٹا سپریم کونسل کی طرف سے ہفتہ کو اسلام آباد کی ایک مرکزی شاہراہ پر احتجاج کیا گیا جس میں قبائلی علاقوں سے آئے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

ان افراد کو حکومت کی اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مظاہرے میں شامل عمائدین نے اپنی تقاریر میں انضمام کی کوششوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ قبائلی عوام سے ان کی رائےمعلوم کرے بصورت دیگر کوئی بھی فیصلہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔

شرکا میں قبائلی علاقوں سے مختلف قانون ساز بھی شامل تھے۔ اس موقع پر سینیٹر ہلال الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی عوام اصلاحات ضرور چاہتے ہیں لیکن صوبے میں انضمام سے متعلق ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی جو اپنی الگ شناخت چاہتے ہیں۔

"ہماری رائے کو اہمیت نہیں دی گئی، ہم چاہتے ہیں کہ قبائلیوں کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ جو قبائلی چاہتے ہیں ان میں ریفرنڈم کروا دیں۔ اگر وہ خیبرپختونخواہ میں جانا چاہتے ہیں تو ضم کریں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ الگ صوبہ بنایا جائے تو الگ صوبہ بنائیں۔ ہم تو آئین میں پہلے ہی علیحدہ یونٹ ہیں۔ ہمارے لیے زیادہ ترمیم کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔"

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواہ میں انضمام سے وفاق میں قبائلی علاقوں کی نمائندگی بھی کم ہو جائے گی جس کا فاٹا کے مستقبل پر گہرا اثر پڑے گا۔

حکومت نے قبائلی علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے ایک اصلاحاتی کمیٹی قائم کی تھی جس کی سفارشات میں ان علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے کا کہا گیا تھا۔

وفاقی کابینہ اس کی منظوری دے چکی ہے لیکن اس کے لیے درکار قانون سازی کا عمل تاحال تعطل کا شکار ہے اور ابھی تک یہ مسودہ قانون ایوان میں پیش نہیں کیا گیا جس پر حزب مخالف کی جماعتیں شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ اس عمل میں جان بوجھ کر تاخیر کر رہی ہے اور اگر مزید تاخیر کی گئی تو اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا جائے گا۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت ان اصلاحات کو منظور کرنا چاہتی ہے لیکن مسودہ قانون پر مزید مشاورت کی ضرورت ہے اور اتفاق رائے کے بعد ہی اسے ایوان میں پیش کیا جائے گا۔