یوکرین کی فوجوں اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان لڑائی میں اضافے پر تشویش بڑھ رہی ہے، جبکہ یوکرین کے صدر نے بڑے پیمانے پر جنگ کے لیے خبردار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے مشرقی یوکرین کے مرکزی فوجی دفتر کراماٹورسک میں ریلوے اسٹیشن پر کئی یوکرینی فوجیوں کو آتے اور فوجی گاڑیوں میں شہر میں تقل و حرکت کرتے دیکھا۔
یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے قانون سازوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ روسی زبان بولنے والے مشرقی یوکرین میں لڑائی میں اضافے کے بعد روس کی جانب سے ’’بھرپور حملے کے امکان‘‘ کے خلاف دفاع کے لیے تیار رہیں۔
پوروشینکو نے جمعرات کو دارالحکومت کیف میں بات کرتے ہوئے بھرپور جنگ کے ’’زبردست خطرے‘‘ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ 9,000 روسی فوجی پہلے ہی مشرقی یوکرین میں جمع ہیں۔ گزشتہ ہفتے خبررساں ادارے ’روئٹرز‘ نے خبر دی تھی کہ یوکرین کی سرحد سے 50 کلومیٹر دور روسی علاقے میں بڑی تعداد میں فوجیں جمع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
اس ہفتے مشرقی یوکرین میں دوبارہ لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ یوکرینی حکام کے مطابق لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب توپخانے اور ٹینکوں سے لیس 1,000 کے قریب باغی جنگجوؤں نےڈونیٹسک کے بالکل مغرب میں طلوعِ سحر سے قبل حملہ کیا۔
روس نے یوکرین میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہاں کوئی روسی شہری ہیں تو وہ رضاکار ہیں۔
باغیوں نے 15 شہریوں اور جنگجوؤں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے جبکہ کیف میں حکام نے کہا ہے کہ مارینکا شہر میں تین فوجی ہلاک اور دیگر 30 زخمی ہو گئے ہیں۔
تشدد کے تازہ واقعات کے بعد جمعرات کو وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر اوباما جرمنی میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں یورپی رہنماؤں پر’’مشرقی یوکرین میں روس کی جارحیت‘‘ کے باعث اس کے خلاف پابندیاں جاری رکھنے پر زور دیں گے۔
یورپی یونین نے تشدد کے حالیہ واقعات کو جنگ بندی کی سب سے شدید خلاف ورزی قرار دیا ہے جس پر فریقین نے فروری میں اتفاق کیا تھا۔