ٹرمپ اور عمران خان ٹوئٹر پر آمنے سامنے

عمران خان نے کہا تھا کہ ’امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوجیوں اور ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں کیوں طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘

صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس پر عمران خان نے ٹویٹ کیا ہے کہ ٹرمپ کے جھوٹے دعوے پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں جس نے جانوں کی قربانی دی، خود کو غیر مستحکم کیا اور معاشی نقصان برداشت کئے۔ اُنہیں تاریخی حقائق یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان امریکی جنگ لڑتے ہوئے بہت زیادہ نقصان اُٹھا چکا ہے۔ اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے لوگوں اور ہمارے مفادات کیلئے بہترین ہو گا۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ "ہم اب پاکستان کو اربوں ڈالر نہیں دے رہے کیونکہ وہ ہم سے پیسہ لے رہے تھے اور کر کچھ نہیں رہے تھے۔ اس کی پہلی مثال اسامہ بن لادن اور دوسری افغانستان ہیں۔"

انہوں نے لکھا کہ ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے اور انہوں نے ہمیں نہیں بتایا کہ اسامہ بن لادن وہاں (پاکستان) میں رہ رہا تھا۔

​امریکی صدر کے ٹوئٹ سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ افغانستان میں ناکامی کا الزام پاکستان پر ڈالنے کے بجائے امریکہ خود اس کا جائزہ لے۔

وزیراعظم عمران خان کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا تھا جب اتوار کو امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو اتنی امداد دینے کے باوجود اُس نے امریکہ کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری مختصر پیغام میں کہا کہ ’امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوجیوں اور ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں کیوں طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘

عمران خان نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف بیان بازی کے بعد اب ریکارڈ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ نمبر ایک، پاکستان نائن الیون میں شامل نہیں تھا لیکن پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ نمبر دو، پاکستان نے اس جنگ میں 75 ہزار افراد کی جانیں گنوائیں اور معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ اس کے بدلے امریکہ سے ملنے والی امداد محض 20 ارب ڈالر ہے۔

صدر ٹرمپ نے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے عوام جانتے تھے کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد پاکستان میں فوجی اکیڈمی کے بالکل قریب رہتا تھا۔

امریکی صدر نے کہا کہ اس سب کے باوجود امریکہ پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر دیتا رہا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے امداد بند کر دی ہے کیونکہ پاکستان ہمارے لیے کچھ نہیں کرتا ہے۔‘

عمران خان سے قبل پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان کا دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا تھا۔

شریں مزاری نے ٹوئٹ کی تھی کہ امریکہ کے ساتھ مفاہمت اور معاملات کو نظر انداز کرنے سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے امداد بند کر دی ہے کیونکہ پاکستان ہمارے لیے کچھ نہیں کرتا ہے۔‘

شریں مزاری نے ٹوئٹ کی تھی کہ امریکہ کے ساتھ مفاہمت اور معاملات کو نظر انداز کرنے سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔

شیریں مزاری نے ٹوئٹ کی کہ ڈرون حملوں میں لوگوں کی غیر قانونی ہلاکت اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے افسوس کے ساتھ ایک بار پھر تاریخ ہم پر یہ واضح کرتی ہے کہ امریکہ کو خوش کرنے کی پالیسی سے کام نہیں چلتا ہے۔

شیریں مزاری نے امریکی خارجہ پالیسی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین ہو یا ایران امریکہ کی کسی ملک کو محدود کرنے اور الگ کرنے کی پالیسی پاکستان کے اسٹریٹجک مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف سخت بیانات اور ان کا یہ دعویٰ کہ پاکستان نے امریکہ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا یہ پاکستان کے ان رہنماؤں کے لیے سبق ہے جو نائن الیون کے بعد امریکہ کو خوش کرتے رہے۔ (لوگوں کو ) امریکہ کے حوالے کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستانیوں کا جانی نقصان ہوا اور ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی اہلکار پاکستان میں آزادانہ گھومتے پھرتے رہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدگی کا شکار ہیں اور امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو پہلی بار تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے اس سے قبل سال کی ابتدا میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے ہیں اور پاکستان نے امریکہ کو صرف بے وقوف بنایا ہے۔