وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رابرٹ مولر کو برطرف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں جو 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے یہ وضاحت صدر ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر کیے جانے والے ان کئی ٹوئٹس کے بعد کی ہے جن میں صدر نے رابرٹ مولر کا نام لے کر انہیں براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹس میں رابرٹ مولر کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے تاثر دیا تھا کہ مولر اور ان کی ساتھی سیاسی تعصب برت رہے ہیں۔
صدر کے ان ٹوئٹس کے بعد امریکہ کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ایک بار پھر یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ کہیں تحقیقات سے نالاں صدرٹرمپ، رابرٹ مولر کو ان کے عہدے سے فارغ کرنے کا ارادہ تو نہیں کر رہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں کئی بار رابرٹ مولر کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر ضروری قرار دے چکے ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے جاری ان تحقیقات کے دوران صدر نے بارہا کہا ہے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات سے قبل ان کی انتخابی مہم کے ذمہ داران نے روس سے کوئی ساز باز نہیں کی تھی۔
ہفتےکی شب اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ رابرٹ مولر کی تحقیقات کا آغاز ہونا ہی نہیں چاہیے تھا کیوں کہ نہ روسیوں کے ساتھ کوئی ساز باز ہوئی تھی اور نہ کوئی جرم ہوا تھا۔
اتوار کو ایک دوسرے ٹوئٹ میں صدر نے الزام لگایا کہ رابرٹ مولر کی ٹیم میں 13 کٹر ڈیموکریٹ موجود ہیں جو ان کے بقول ہیلری کلنٹن کے سرگرم حامی ہیں لیکن کوئی ایک ری پبلکن بھی تحقیقاتی ٹیم میں شامل نہیں۔
رابرٹ مولر خود ایک ری پبلکن ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی تحقیقاتی ٹیم میں بعض ایسے افراد شامل ہیں جو ماضی میں ڈیموکریٹس کے سیاسی امیدواران کی مالی مدد یا معاونت کرتے رہے ہیں۔
لیکن امریکی محکمۂ انصاف اور وفاقی حکومت کے قوانین کے مطابق نہ تو اس نوعیت کی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی جاسکتی ہیں اور نہ ذمہ دار افراد سیاسی تعصب برت سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے ان ٹوئٹس کے بعد ایک بار پھر اس خدشے کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی کہ شاید صدر رابرٹ مولر کو ان کے عہدے سے ہی برطرف کرنے کا سوچ رہے ہیں تاکہ یہ تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔
تاہم وائٹ ہاؤس کے ایک وکیل ٹی کوب نے اتوار کی شب اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ صدر کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔
ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کے وکیل نے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں جاری قیاس آرائیوں اور اس بارے میں پوچھےجانے والے سوالات کے پیشِ نظر وائٹ ہاؤس ایک بار پھر یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہے کہ صدر کا نہ تو رابرٹ مولر کو برطرف کرنے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کسی سے کوئی مشورہ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس کے بعد کئی ارکانِ کانگریس اور خود ان کی جماعت ری پبلکن کے کئی رہنماؤں نے بھی انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ رابرٹ مولر کے خلاف کسی اقدام سے باز رہیں۔
صدر ٹرمپ کے ایک اتحادی اور جنوبی کیرولائنا سے منتخب سینیٹر لنڈسے گراہم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر صدر نے رابرٹ مولر کو برطرف کرنے کی کوشش کی تو یہ ان کی صدارت کے خاتمے کا آغاز ہوگا۔
صدر ٹرمپ براہِ راست رابرٹ مولر کو ان کے عہدے سے برطرف نہیں کرسکتے۔ رابرٹ مولر کی برطرفی کا اختیار ڈپٹی اٹارنی جنرل روڈ روبسنٹین کے پاس ہے جنہیں اس عہدے پر صدر ٹرمپ نے تعینات کیا ہے۔
لیکن رابسنٹین بھی بغیر کوئی وجہ بتائے مولر کو برطرف نہیں کرسکتے اور وہ ماضی میں مولر کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔