ٹرمپ کا تائیوانی صدر سے رابطہ، چین کا اعتراض

امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تائیوان کی صدر سائی انگ ون کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کو چین نے "تائیوان کی طرف سے ایک چھوٹی چال" قرار دیا ہے۔

چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے ہفتہ کو اس امید کا اظہار کیا کہ بیجنگ کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ یہ چیز مدنظر رکھنی چاہیے کہ دنیا میں صرف ایک ہی چین ہھے اور تائیوان، چین کا ایک لازمی حصہ ہے۔

جمعہ کو ٹرمپ نے متعدد عالمی راہنماؤں سے فون پر گفتگو کی تھی لیکن خاص طور پر تائیوان کی صدر سائی سے ہونے والی بات چیت پر منتخب صدر کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے تھا کہ اس سے چین برہم ہو سکتا ہے جو کہ تائیوان کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے۔

یہ کسی بھی امریکی صدر یا منتخب صدر اور تائیوان کے راہنما کے درمیان 1979ء کے بعد پہلا ٹیلی فونک رابطہ خیال کیا جا رہا ہے۔ 1979ء میں امریکہ نے تائیوان سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

ٹرمپ نے خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "تائیوان کی صدر نے انھیں صدارتی انتخاب جیتنے پر اظہار تہنیت کے لیے فون کیا تھا۔"

بعد ازاں ٹوئٹر پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "یہ بہت دلچسپ امر ہے کہ امریکہ تائیوان کو اربوں ڈالر کا فوجی سازوسامان فروخت تو کرتا ہے لیکن مجھے تہنیتی کال قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔"

تائیوان کی صدر کے دفتر سے جمعہ کو دیر گئے جاری ایک بیان میں بتایا کہ ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں سائی نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ بین الاقوامی امور میں تائیوان کی شراکت کی حمایت جاری رکھے گا۔

بیان میں بتایا گیا کہ "دونوں راہنماوں نے ایشیا میں علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ تائیوان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے مستقبل پر بھی بات چیت کی۔ صدر سائی دوطرفہ رابطوں کو مضبوط کرنے اور قریبی تعاون کی منتظر ہیں۔"

ٹرمپ کی ترجمان کیلیان کونوے کا کہنا تھا کہ منتخب صدر بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تائیوان سے متعلق امریکہ کی پالیسی کیا ہے۔

سی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "منتخب صدر ٹرمپ اس سے قطع نظر کہ فون پر دوسری جانب کون ہے، تمام امور کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتے ہیں اور انھیں اس کا ادراک ہے۔"

صدر سائی انگ وی

سائی روانی کے ساتھ انگلش بولتی ہیں اور دس منٹ تک جاری رہنے والی اس گفتگو میں کوئی مترجم درکار نہیں تھا۔

تائیوان کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لی اور سائی کے مشیر برائے قومی سلامتی جوزف وو بھی اس اس فون کال کے دوران موجود تھے۔

اوباما انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وائٹ ہاوس کو اس فون کال کے بارے میں گفتگو ہو جانے کے بعد مطلع کیا گیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی اس معاملے پر "ایک چین پالیسی" میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

محکمہ خارجہ نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔