|
ویب ڈیسک — امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ردِ عمل میں کہا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کی دلچسپی شام سے ختم ہو چکی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے صدر پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات کریں۔
اتوار کو باغیوں کے شام کے دارالحکومت دمشق میں داخلے اور بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اپنے پہلے ردِ عمل میں منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹرتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے:’’ اسد جاچکے، وہ ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ ان کے مدد گار روس تھا، پوٹن کی قیادت والا روس۔‘‘
شام میں باغی تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق میں داخل ہوگئے ہیں اور شام سے اسد خاندان کی پچاس برس پر محیط حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی میں روس اور ایران کو بشار الاسد کا سب سے بڑا مدد گار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کی ساری توجہ اپنی جنگ پر مرکوز تھی۔
ادھر لبنان میں اسرائیل کے حملوں کے باعث حزب اللہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جو حکومت مخالف باغیوں کو پسپا کرنے کے لیے ماضی میں ایران کی مدد سے شام میں بشار حکومت کو کمک فراہم کرتی رہی ہے۔
اپنے ردِ عمل میں ٹرمپ نے کہا کہ بشار کو بچانے میں اب روس کی دل چسپی نہیں رہی تھی اور روس کو پہلے بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کی وجہ سے شام میں روس کی دل چسپی نہیں رہی تھی اور یوکرین کی جنگ بھی شروع نہیں ہونی چاہیے تھی۔
ٹرمپ نے کہا کہ روس اور ایران اب کمزور حالت میں ہیں۔ روس کو یوکرین جنگ اور خراب معیشت اور ایران کو اسرائیل کی جنگی کامیابیوں نے کمزور کیا ہے۔
انہوں نے کہا زیلنسکی اور یوکرین بھی اس موقعے پر اس دیوانگی کو روکنے کے لیے آمادہ ہوں گے۔ یوکرین نے بھی جنگ میں بھاری فوجی اور شہری نقصان اٹھایا ہے۔
نومنتخب صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس وقت فوری جنگ بندی اور مذاکرات کی ہونے چاہییں۔ بہت زیادہ جانیں بلا جواز ضائع ہورہی ہیں، کئی خاندان تباہ ہوچکے ہیں اور یہ سب یوں چلتا رہا تو یہ بحران مزید بڑا اور سنگین ہوسکتا ہے۔
SEE ALSO: شام میں اسد خاندان کا 50 سالہ دورِ اقتدار ختم: ’بشار جہاز میں بیٹھ کر دمشق چھوڑ گئے ہیں‘سوشل میڈیا پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا:’’مین ولادیمیر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ عملی طور پر کچھ کرنے کا وقت ہے۔ چین بھی اس سلسلے میں مدد کرسکتا ہے۔ دنیا منتظر ہے۔‘‘
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے ہفتے کو جاری کردہ بیان میں کہا تھا امریکہ کی شام میں یہ ترجیح ہوگی کہ حالیہ تنازع سے خطے میں ایک بار پھر داعش کو مضبوط ہونے کا موقع نہ ملے یا یہ صورتِ حال مزید انسانی المیوں کو جنم دینے کا باعث نہ بنے۔
صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ جو بائیڈن حکومت کا شام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ادھر نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں زور دیا تھا کہ امریکہ کو شام میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔