یہ سال 2016 کے صدارتی انتخابات کا اہم لمحہ ہو ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے مایبن پیر کو ہونے والا پہلا صدارتی مباحثہ، اندازوں کے مطابق، 10 کروڑ ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے، جنھیں یہ موقع میسر آئے گا کہ وہ اسٹیج پر پہلی بار دونوں کو ایکساتھ دیکھ اور پرکھ سکیں۔
دونوں امیدواروں کو بیشمار خدشات ہو سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ناظرین یہ دیکھیں گے کہ کیا کہا جاتا ہے، بلکہ کس طرح کہا جاتا ہے اور امیدوار ایک دوسرے کے خلاف کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔
کونسا ٹرمپ سامنے ہوگا؟
ٹرمپ کا یہ مباحثہ انتہائی اہم ہوگا، جنھوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کی عام جائزہ رپورٹوں کی برتری کے فرق کو کافی پُر کیا ہے، کسی حد تک اس لیے کہ ماضی کے مقابلے میں اُنھوں نے اپنے آپ کو زیادہ نظم و ضبط کا پابند ظاہر کیا ہے۔
اُنھوں نے اپنے مرکزی پیغام پر بھی دھیان مرکوز رکھا ہے: ''ہم امریکہ کو پھر سے مضبوط بنائیں گے۔ ہم امریکہ کو پھر سے محفوظ بنائیں گے۔ اور ہم پھر سے امریکہ کو عظیم بنائیں گے''۔ اُنھوں نے یہ بات فلوریڈا کے شہر، فورٹ مائرز میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو کہ کانٹے کے مقابلے کی حیثیت رکھنے والی ریاست ہے، جہاں، رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق، کلنٹن اور ٹرمپ دونوں کی مقبولیت کی شرح برابر ہوگئی ہے۔
کلنٹن کا کہنا ہے کہ وہ مباحثے کی اس لیے منتظر ہیں تاکہ وہ اپنے حامیوں کو یقین دلا سکیں اور سب کی شمولیت والی معیشت کی تعمیر کی خواہش پر مبنی پیغام کو فروغ دے سکیں؛ جیسا کہ اُنھوں نے فلوریڈا کے شہر، اورلینڈو میں ریلی سے خطاب میں کہی تھی۔ بقول اُن کے، ''ہم سب کی قدر کرتے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، جو دنیا کا عظیم ترین ملک ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ سب لوگ مساوی حقوق کے حامل ہیں''۔
انتخابات کی سخت ہوتی ہوئی دوڑ، شدید جانچ پڑتال
تین مباحثوں میں سے پہلا، جسے روایتی طور پر سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے، اسے ممکنہ طور پر کھیل تبدیل کرنےوالےلمحے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ بات جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے میتھیو ڈیلک نے کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''عین اِس وقت، الیکشن لوگوں کے اندازے سے بھی زیادہ قریب تر ہے، اس لیے یہ دونوں امیدواروں کے لیے انتہائی اہم معاملہ ہے''۔
ٹیلی ویژن پر صدارتی مباحثوں کی ابتدا سنہ 1960 میں ہوئی جب رچرڈ نکسن اور جان کنیڈی ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے۔ تب سے، کافی لوگوں پر مباحثوں نے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تاہم، سارے صدارتی انتخابات میں ایسا نہیں ہوتا۔
جارج میسن یونیورسٹی میں حکومتی نظام سے متعلق ایسو سی ایٹ پروفیسر، جیرمی مائر کے الفاظ میں ''ایک عام سال میں مباحثے کی شکل میں کنوینشنوں کے بعد سوئیاں آگے پیچھے کرنے کا یہی ایک طریقہ رہ جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ نشریات سنتے ہیں''۔
تیار ہوں یا بے پرواہ ہوجائیں؟
مباحثے کے لیے تیاری کا ٹرمپ اور کلنٹن کا طریقہ کار مختلف ہے۔ کلنٹن نے مباحثے کی مشق کے لیے بہت سارا وقت نکالا ہے، جس میں ٹرمپ کے متبادل کے ساتھ نقلی مقابلے کا سماں باندھنا شامل ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے تیاری پر بہت زیادہ وقت نہیں لگایا۔ پنسلوانیا میں ایک ریلی سے خطاب میں اُنھوں نے کلنٹن کو ہدف تنقید بنایا۔ اُنھوں نے کہا کہ ''اچھا، وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ مباحثے کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ سو رہی ہیں''۔
ڈیموکریٹ سمجھتے ہیں کہ پہلے مباحثے میں بے پرواہ قسم کا ٹرمپ سامنے آئے گا، جیسا کہ ماضی میں ری پبلیکن مباحثوں کے دوران اُن کی کارکردگی رہی ہے۔ تاہم، ٹرمپ کے نئے انتخابی عملے کو کچھ دِنوں سےکامیابی حاصل ہوتی رہی ہے، وہ یہ کہ، وہ زیادہ مرکوز دکھائی دیتے ہیں اور ذاتی حملوں کے بہکاوے کا اثر کم قبول کرنے لگے ہیں۔
مجموعی طور پر تین صدارتی مباحثے ہوں گے، جن میں سے ایک میں نائب صدارت کے دونوں امیدوار، ڈیموکریٹ ٹِم کین اور ری پبلیکن پارٹی کے مائیک پینس مدِ مقابل ہوں گے۔