توقع کی جارہی ہے کہ ٹرمپ کی کمپنی کے چیف فنانشل افسر ایلن وائی سل برگ ایک سمجھوتے کے مطابق ٹیکس کے قوانین کی خلاف ورزیوں کے لئے اعتراف جرم کریں گے۔ اور خبر رساں ادارے اے پی کا کہنا ہے کہ ایسے دو افراد نے جو اس معاملے سے آگاہ ہیں اسے بتایا کہ اس سمجھوتے کے تحت انہیں ٹرمپ کی آرگنائیزیشن میں کاروبار کے غیر قانونی طور طریقوں کے بارے میں گواہی دینی ہوگی۔
وائی سل برگ پر الزام ہے کہ انہوں نے سترہ لاکھ ڈالر سے زیادہ کے ایسے معاوضے سابق صدر سے وصول کئے جن کا مالیاتی کھاتوں میں کوئی اندراج نہیں کیا گیا۔ جن میں ایسی مراعات بھی شامل تھیں جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا تھا جیسے کہ کرایہ ہے۔ کار کی قسط ہے اور اسکول کی فیس وغیرہ ہیں۔
مقدمے سے قبل کے اس سمجھوتے کے تحت ان دو افراد کے بقول جنہوں نے اے پی سے اس شرط پر بات کی کہ انکا نام ظاہر نہ کیا جائے کیونکہ انہیں اس معاملے پر برسر عام بات کرنے کا اختیار نہیں ہے، وائی سل برگ کو عدالت میں معاوضے کے مبینہ انتظامات میں کمپنی کے رول کے بارے میں بتانا ہو گا۔ اور ممکنہ طور پر اس وقت عدالت میں گواہ کے طور پر پیش ہونا ہو گا جب اکتوبر میں ٹرمپ کی آرگنائیزیشن کے خلاف متعلقہ فوجداری الزامات میں مقدمے کی سماعت شروع ہوگی۔
ان لوگوں نے بتایا کہ امکان ہے کہ وائی سل برگ کوجنکی عمر پچہتر برس ہے۔ پانچ ماہ کی قید کاٹنا پڑے ۔ یہ عرصہ قید وہ نیو یارک شہر کی بدنام زمانہ جیل رائیکرز آئی لئُڈ کمپلیکس میں گزاریں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ انہیں کوئی بیس لاکھ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے جس میں ٹیکس۔ جرمانے اور سود وغیرہ شامل ہوں۔ اگر یہ سزا برقرار رہتی ہے تو وہ کوئی ایک سو دن کے بعد رہائی کے اہل ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اے پی کا کہنا ہے کہ نیو یارک کے مین ہٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر اور وائی سل برگ اور ٹرمپ کی کمپنی سے اس معاملے پر انکا نقطہ نظر جاننے کی درخواست کی گئ ہے۔
ڈسٹرکٹ اٹارنی اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ اور انکی کمپنی نے قرضے لینے یا ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی املاک کی قیمت کے بارے میں بنکوں یا حکومت سے جھوٹ بولا۔
ٹرمپ کی کمپنی پر ٹیکس فراڈ کے جو الزامات ہیں انکے تحت سزا غیر ادا شدہ ٹیکس کی رقم سے دو گنی یا ڈھائی لاکھ میں سے جو بھی زیادہ ہو اسکی ادائیگی ہے۔
ٹرمپ پر فوجداری تحقیقات کے حوالے سے کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔ اور ریپبلیکنز کہتے ہیں کہ نیویارک کی یہ تحقیقات سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئیں۔ اور یہ کہ ٹرمپ کی کمپنی کے کارو باری طریقے املاک کے کاروبار کے معمول کے طریقوں کے مطابق ہیں اور کسی بھی اعتبار سے جرم کے زمرے میں شامل نہیں ہیں۔