امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی ہیں۔ ان پابندیوں کا اطلاق پیر کی رات 12 بجے سے ہوگیا ہے۔
ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایران کی حکومت کو ایسی ’’قاتلانہ آمریت‘‘ قرار دیا جو مسلسل ’’خونریزی، تشدد اور ہنگامہ آرائی‘‘ کرتی رہی ہے۔
ایران پر یہ پابندیاں 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے سے صدر ٹرمپ کے باہر نکل جانے کے اعلان کے تین ماہ بعد عائد کی گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ نئی پابندیاں ایران کی کارسازی کی صنعت، سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت کے علاوہ ایران کی کرنسی ’ریال ‘ اور اُس کے دیگر مالیاتی سودوں پر اثر انداز ہوں گی۔
اُنہوں نے کہا کہ پانچ نومبر سے امریکہ ایران کی ایندھن سے متعلقہ تجارت پر بھی پابندیاں عائد کر دے گا۔ اس سے غیر ملکی مالیاتی اداروں کے ایران کے مرکزی بینک سے لین دین پر شدید منفی اثر پڑے گا۔
صدر ٹرمپ نے ان پابندیوں کا اعلان نیو جرسی میں اپنے گولف کورس میں ورکنگ تعطیلات کے دوران کیا۔ اُنہوں نے 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ایک بار پھر ’’انتہائی خراب یک طرفہ معاہدہ‘‘ قرار دیا جو بقول اُن کے ایران کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے طے ہونے کے بعد ایران کی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے اور تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے مالی سرمائے کو ایران نے جوہری ہتھیاروں کے حامل میزائلوں کی تیاری، دہشت گردی اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ہوا دینے پر خرچ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایران اب بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو دھمکیاں دیتا ہے، بین الاقوامی مالیاتی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دیتے ہوئے پراکسی جنگ کی حمایت کرتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ 100 کے لگ بھگ بین الاقوامی کمپنیوں نے ایرانی مارکیٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا ہے جن میں زیادہ تر کمپنیاں توانائی اور مالیاتی شعبوں میں کام کر رہی تھیں۔