امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان کے درمیان بدھ کو ملاقات ہوئی ہے جس کا مقصد نیٹو اتحادیوں کے مابین بڑھتی ہوئی نااتفاقی کو دور کرنا تھا۔
اوول آفس میں ہونے والی اس ملاقات کا محور ترکی کی شام کے بارے میں پالیسی اور روسی دفاعی میزائل نظام کی خریداری کا معاملہ بھی تھا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے ترک صدر کو ایسے وقت خوش آمدید کیا ہے جب امریکی کانگریس کرد ملیشیا کو شام سے باہر نکالنے کی ترکی کی فوجی کارروائی پر برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔ جنگجو تنظیم داعش کے خلاف لڑائی میں کرد ملیشیا امریکہ کا ایک اہم ساتھی رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم ایک طویل مدت سے ایک دوسرے کے دوست رہے ہیں۔ تقریباً پہلے ہی دن سے۔ ہم ایک دوسرے کے ملکوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم اپنے حالات کو خوب سمجھتے ہیں۔‘‘
ایردوان اور ان کی بیگم امینہ کے لیے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ملک اور خطے میں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین نے ایردوان کے دورے کی مذمت کی اور ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ کردوں کو تحفظ فراہم کریں، جنھیں شام پر ترکی کی مداخلت سے خطرات کا سامنا ہے۔ ایک آویزاں کتبے پر تحریر تھا: ’امریکہ کرد اتحادیوں کا ساتھ دے‘
ٹرمپ نے کہا کہ ترکی کی جانب سے روسی ایس 400 دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ دونوں فریق 100 ارب ڈالر کے ایک تجارتی سمجھوتے پر گفتگو کریں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم تجارتی سمجھوتے پر بھی بات کر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم تجارتی تعلقات کو بہت فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘‘
اس سے قبل، وائٹ ہاؤس پہنچنے پر صدر ٹرمپ نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کو خوش آمدید کہا۔ اوول آفس میں ترکی کے صدر کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں دوسروں کی سرحدوں کے بارے میں تشویش نہیں ہے بلکہ ہم اپنی سرحدوں کے بارے میں متفکر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ترکی کے ساتھ تجارت بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔
امریکہ اور نیٹو کے دیگر اتحادیوں نے ترکی کی جانب سے روسی ایس 400 میزائل نظام خریدنے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات اتحاد کے دفاعی نظاموں سے مطابقت نہیں رکھتی، جبکہ اس سے امریکی ایف 35 لڑاکا جیٹ طیاروں کے پروگرام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
جوابی کارروائی کے طور پر امریکہ نے ایف 35 کی تیاری کے حوالے سے ترکی کی وابستگی منسوخ کر دی ہے۔
سربراہ ملاقات سے قبل اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے کہا کہ میزائل نظام کا معاملہ ایسا ہے جس پر ٹرمپ ترکی سے مذاکرات کے دوران ’’کھل کر بات ہوگی‘‘۔
اہلکار کے مطابق، ’’جیسا کہ وہ سرعام نشاندہی کر چکے ہیں کہ معاشی اعتبار سے اس دو طرفہ تعلق میں خاصی اونچ نیچ ہے، جس کا ایک اہم حصہ ایف 35 ، ترکی کا کردار اور ایف 35 پروگرام میں ترکی کا ممکنہ رول شامل ہے۔ لیکن، اس کے لیے اتحادی چاہتے ہیں کہ ایس 400 کے معاملے کو حل کیا جائے‘‘۔
اردوان کے ترجمان، فریدون التن نے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا ہے کہ روسی میزائل خریدنے کے معاملے پر ترکی نے اپنا مؤقف صاف بتا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’ترکی کو دفاعی میزائل نظام کی فوری ضرورت ہے۔ اس سے قبل کہ یہ معاملہ ہمارے تعلقات میں رکاوٹ بنے، امریکہ کو چاہیئے کہ وہ اس بات کو تسلیم کر لے۔ ہماری دفاعی پارٹنرشپ کے لیے ایف 35 پروگرام میں شمولیت اہمیت کی حامل ہے‘‘۔
ایک امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی دوسری ترجیح شام کی صورت حال کا معاملہ ہو گی، جہاں امریکہ کو خدشہ ہے کہ داعش کا گروپ پھر سے سر اٹھا سکتا ہے، ساتھ ہی ترک مداخلت سے ’’مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف زیادتیاں‘‘ ہو سکتی ہیں، جس امکان سے بچنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ٹرمپ یہ بھی چاہیں گے کہ ترکی کے ساتھ انسانی حقوق کے معاملے پر بات کی جائے۔