نیویارک کے ایک جج نے جمعے کے روز ڈونلڈ ٹرمپ کو دھوکہ دہی کے الزامات پر ساڑھے 35 کروڑ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا اور نیویارک میں ان کے کاروبار پر تین سال کی پابندی لگا دی۔
ٹرمپ کی دفاعی وکیل علینہ حبہ نے اس فیصلے کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف اپیل کی جائے گی۔
دیوانی مقدمہ ہونے کی وجہ سے اس میں جیل کی قید کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
ٹرمپ نے فیصلے سے قبل کہا تھا کہ نیویارک ریاست میں کاروبار کرنے پر پابندی ایک کاروباری کارپوریشن کی موت کے مترادف ہو گی۔
ٹرمپ نے،جنہیں دوسرے معاملات میں 91 فوجداری الزامات کا سامنا ہے، کہا ہے کہ عدالتی مقدمات انتخابات میں انہیں نقصان پہنچانے کا صرف ایک طریقہ ہیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ کو ہتک عزت کے مقدمے میں مصنفہ کو آٹھ کروڑ ڈالر سے زائد ہرجانہ ادا کرنے کا حکمتاہم، جج آرتھر اینگورون نے کہا کہ جرمانے ٹرمپ کے رویے سے جائز مطابقت رکھتے ہیں۔
جج اینگورون نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان پر صرف زیادہ پیسہ کمانے کے لیے اثاثوں کی قدروں میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔۔۔۔ وہ اپنے طریقوں کی غلطی کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔
ٹرمپ کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر بھی اس مقدمے میں ذمہ دار پائے گئے اور ہر ایک کو 40 لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
جج کا حکم نیویارک کی ریاست کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز کی فتح ہے۔ انہوں نے ٹرمپ پر فائدے اٹھانے کے لیے غلط طریقے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے، اس کے ازالے کے لیے 37 کروڑ ڈالر ادا کرنے ، اور ساتھ ہی انہیں ریاست میں کاروبار کرنے سے روکنےکےلیے کہا تھا۔
SEE ALSO: ٹرمپ کےخلاف پہلے فوجداری مقدمے کی سماعت 25 مارچ کو ہو گیٹرمپ کے وکیل کرس کائس نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نیت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح اور وجود رکھنے والا ثبوت موجود نہیں ہے۔
کائس نے تسلیم کیا کہ ٹرمپ کے کاروباری مالیاتی بیانات میں غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن کوئی بھی اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ وہاں دھوکہ دہی ہوئی تھی۔
ٹرمپ اس سے پہلے جمعرات کو ایک فوجداری مقدمے میں نیویارک کی ایک عدالت میں پیش ہوئے، جہاں انہیں غیر قانونی طور پر رقم کی ادائیگی کو چھپانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ یہ کسی سابق امریکی صدر کے خلاف پہلا مجرمانہ کیس ہے۔
اٹلانٹا، جارجیا میں ٹرمپ کے وکلاء بھی ٹرمپ کی نمائندگی کر رہے تھے، جہاں ان پر 2020 کے انتخابات کو پلٹنے کی سازش کا الزام ہے، جس میں وہ بائیڈن سے ہار گئے تھے۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)