پوسٹل ووٹنگ پر صدر ٹرمپ کے خدشات، انتقالِ اقتدار کی ضمانت دینے سے گریز

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ پوسٹل ووٹنگ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اُن کے بقول یہ تباہ کن ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ناکامی کی صورت میں انتقالِ اقتدار کی ضمانت سے متعلق سوال کا دو ٹوک جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہوتا ہے۔"

بدھ کو وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی شفافیت پر سوال اُٹھائے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ پوسٹل ووٹنگ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اُن کے بقول یہ تباہ کن ہے۔

انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ متعدد بار کوئی ثبوت پیش کیے بغیر ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے میں لاکھوں ووٹ دھوکہ دہی کی نذر ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے مسائل کے پیشِ نظر ڈیموکریٹک رہنما شہریوں کی ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ اس انداز کے بیلٹ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اقتدار کی منتقلی نہیں ہو گی بلکہ اقتدار کا تسلسل ہو گا."

دوسری جانب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے اس بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ "ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں۔ دیکھیں اُنہوں نے کتنی غیر معقول بات کی ہے۔ میں اس پر کیا کہہ سکتا ہوں۔"

ری پبلکن سینیٹر مٹ رومنی نے صدر ٹرمپ کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اقتدار کی پرُامن منتقلی جمہوریت کا بنیادی جزو ہے۔ اس کے بغیر تو پھر بیلاروس ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ یہ تاثر ملنا کہ صدر ملک کے آئین کا احترام نہیں کرتے، ناقابلِ یقین اور ناقابلِ قبول ہے۔

رومنی، جو 2012 کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار تھے، صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے اختلافات کا سرِ عام اظہار کرتے رہتے ہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف نے بھی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدر ٹرمپ نے وہ کہا ہے جو وہ کہنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والوں کو صدر کی اس بات پر احتجاجاً مستعفی ہو جانا چاہیے۔

آئینی حقوق کی تنظیم امریکن لبرٹیز یونین کے قانون کے قومی ڈائریکٹر ڈیوڈ کول نے کہا ہے کہ اقتدار کا پر امن انتقال ایک فعال جمہوریت کا لازمی حصہ ہے، لہذٰا صدر کا بیان ہر امریکی شہری کے لیے پریشان کن ہونا چاہیے۔

جولائی میں 'اے بی سی' چینل اور 'دی واشنگٹن پوسٹ' اخبار کے اشتراک سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق 49 فی صد امریکی ووٹرز سمجھتے ہیں کہ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ فراڈ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جب کہ 43 فی صد ووٹرز سمجھتے ہیں کہ فراڈ کو روکنے کے لیے حفاظتی انتظامات کافی ہیں۔

اس سروے کے مطابق صدر ٹرمپ کے 78 فی صد حامیوں کا کہنا تھا کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے عمل میں فراڈ ہو سکتا ہے جب کہ بائیڈن کے 28 فی صد حامیوں نے اس سے اتفاق کیا۔

بدھ کو صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے نتائج سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتے ہیں۔ لہذٰا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز موجود ہوں۔

صدرٹرمپ سپریم کورٹ کی جج روتھ بیڈر گنزبرگ کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی نشست کے لیے ہفتے کو نئے جج کی نامزدگی کریں گے۔

اگر سینیٹ نے نئے نامزد جج کی منظوری دے دی تو امریکی سپریم کورٹ کے نو ججز میں قدامت پسند ججز کی تعداد چھ ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ڈیموکریٹس جو 'جعلی' کام کرنا چاہتے ہیں وہ سپریم کورٹ کے سامنے ہو گا۔ لہذٰا اُس موقع پر وہاں چار، چار ججز کا تناسب مناسب نہیں ہو گا۔