امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے سے فون پر گفتگو میں ایران کے جوہری معاہدے سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ٹرمپ کو 12 مئی تک یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا امریکہ 2015ء میں ہوئے ایران جوہری معاہدے میں شامل رہے یا اس سے علیحدہ ہو جائے۔
اس جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اپنی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عوض دہائیوں سے عائد بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی کی سہولت میسر آئی تھی۔ لیکن ٹرمپ شروع ہی سے اس معاہدے کو "ناقص" قرار دیتے رہے ہیں۔
اس معاہدے پر برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ نے دستخط کیے تھے۔ وزیراعظم مے نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ معاہدہ تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے کا بہترین ذریعہ ہے۔
فرانس کے صدر ایمانیوئل میخواں نے بھی گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ان پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں۔
وائٹ ہاوس کے مطابق مے سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے "اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے دینے کو یقینی بنایا جائے گا۔"
دونوں رہنماوں نے شمالی کے جوہری معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
وائٹ ہاوس کے مطابق "ایسے میں جب ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے اپنے مقصد پر زور دیا۔"
برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن اتوار کو دو روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچ رہے ہیں جہاں وہ نائب امریکی صدر مائیک پینس اور مشیر قومی سلامتی جان بولٹن سے ملاقاتیں ہوں گی اور ایران، شمالی کوریا اور شام سمیت دیگر امور پر بات چیت ہو گی۔