بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی نے 25 اور 26 جون کو امریکہ کا دورہ کیا جس کی سب سے نمایاں بات 26 جون کو وایٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ سے اُن کی ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اُس میں پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا کہ اُس کی زمین دیگر ممالک میں دہشت گردی کی اعانت کیلئے استعمال نہیں کی جائے گی۔
مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے ملک میں بنیاد پزیر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے ممبئی، پٹھانکوٹ اور دیگر سرحد پار حملوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
مودی۔ٹرمپ ملاقات سے قبل امریکہ نے کشمیری گروپ حزب المجاہدین کے لیڈر سید صلاح الدین کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا۔ بھارت نے اس اقدام کو سراہا تھا جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان کے ایک معروف دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئر (ریٹائرڈ) عمران ملک نے وائس آف امریکہ اُردو سروس سے خصوصی بات چیت میں بھارت۔ امریکہ سربراہ ملاقات کے نتائج کو پاکستان کیلئے پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان کو حقیقتاً دیوار سے لگانے کی ایک کوشش ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کے بارے میں یہ بیان حقیقی طور پر امریکی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے تو اس کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس ملاقات میں بھارت کو 22 جدید ترین ڈرون فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھارت میں F-16 طیارے تیار کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دے گی۔ اس کے علاوہ سربراہ ملاقات میں امریکہ۔بھارت دفاعی تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بریگیڈئر (ریٹائرڈ) عمران ملک کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات پاکستان کو چین اور روس کے کیمپ میں دھکیل دیں گے جس سے پاکستان۔ امریکہ تعاون مزید کمزور ہو جائے گا۔ بھارت کو جدید ترین دفاعی سامان کی فراہمی کے باعث بھارت اور پاکستان کے درمیان روایتی ہتھیاروں کی تفریق اس قدر بڑھ جائے گی کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں پر انحصار میں مسلسل اضافہ کرتا جائے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں انڈیا پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر تنوی مدن نے ایک خصوصی بات چیت میں ہمیں بتایا کہ اس سربراہ ملاقات کی سب سے اہم بات بھارتی وزیر اعظم مودی کا صدر ٹرمپ کے ساتھ ذاتی سطح پر ایک تعلق قائم کرنا تھا جس میں وہ نہایت کامیاب رہے۔ دونوں راہنما تین بار گلے ملے اور اسے امریکہ اور بھارت دونوں ممالک میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔
ڈاکٹر تنوی مدن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے 22 جدید ترین گارڈئن ڈرون طیاروں سمیت بھارت کو جدید دفاعی سامان کی فراہمی سے خطے کی صورت حال یکسر تبدیل ہو جائے گی جس سے پاکستان میں یقیناً مایوسی ہو گی۔
دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ڈاکٹر مدن نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ پاکستان میں اب کوئی دہشت گرد تنظیم موجود نہیں ہے۔ اس ملاقات کے مشترکہ اعلامیے سے اس بات کی نفی ہو گئی ہے اور اب پاکستان کو یہ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ اور بھارت کے خدشا ت دور کرنے کے حوالے سے وہ کیا کر سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کی جس انداز میں پزیرائی ہوئی ہے اور جس طرح اُن کا ستقبال کیا گیا ، یہ اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ بھارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور خاتون اول ملانیا ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کو وایٹ ہاوس کی تفصیلی سیر بھی کرائی جس سے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان قریبی تعلق کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ اس سال کے آخر میں عالمی سرمایہ کاری اجلاس میں امریکی وفد کی قیادت کریں گی جو بھارت میں منعقد ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُنہیں خوشی ہے کہ وزیر اعظم نرندر مودی نے اس اجلاس کیلئے اُن کی بیٹی ایوانکا کو امریکی وفد کی سربراہی کرنے کی دعوت دی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے اس دورے میں بڑی امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے بھی خصوصی ملاقات کی جن میں ایپل کے سربراہ ٹم کُک، وال مارٹ کے سربراہ ڈگ میک ملن، کیٹر پلر کے جم امپلیبی، گوگل کے سُندر پچائی اور مائکروسوفٹ کی ستی انڈیلا شامل ہیں۔
ڈاکٹر مدن کا کہنا ہے کہ ان بڑی امریکی کمپنیوں کے مالکان نے بڑے غور سے اور دلچسپی سے بھارتی وزیر اعظم کی گفتگو سنی اور اُنہوں نے بھارت میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
امریکہ نے بھارت کو مائع قدرتی گیس فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ اگلے چند برسوں میں بھارت کو قدرتی گیس کی فراہمی 40 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گی۔
ڈاکٹر تنوی کا کہتی ہیں کہ پاکستان کیلئے یہ بات قدرے باعث سکون بھی ہوگی کہ سربراہ ملاقات میں پاکستان سے جو مطالبات کئے گئے ہیں، وہ اس سے زیادہ شدید نوعیت کے بھی ہو سکتے تھے۔