جرمن چانسلر کے ہمراہ کھڑے ہوئے، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز اس بات پر زور دیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چاہے اسے روکنے کا معاہدہ ختم بھی جائے۔
ٹرمپ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا پائیں گے، آپ کو یقین ہونا چاہیئے‘‘۔
یہ معلوم کرنے پر کہ اگر ایران پھر سے جوہری ہتھیار تشکیل دینے لگتا ہے، یا 2015ء کا معاہدہ جسے’جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن‘ کہا جاتا، ترک ہوتا ہے، تو اُس صورت میں وہ کیا اقدام کریں گے، صدر نے کہا ’’میں آیا ایسا ہو یا ایسا نہ ہو کی بات نہیں کرتا، میں فوجی طاقت استعمال کروں گا‘‘۔
جمعے کے روز ٹرمپ کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد،جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل اخباری کانفرنس میں ٹرمپ کے ہمراہ موجود تھیں۔
اُنھوں نے معاہدے کو ’’بہترین‘‘ قرار نہیں دیا، اور کہا کہ اس سے ایران کے تمام مسائل حل نہیں ہوتے۔
اُنھوں نے اسے ایک ایسی دستاویز قرار دیا جس کی مدد سے ایران کو برے عزائم سے دور رکھا جاسکے، جرمنی اسے ’’انتہائی ضروری‘‘ سمجھتا ہے تاکہ ایران کی دھمکیوں پر لگام ڈالا جاسکے، جسے وہ شام پر جغرافیائی اور سیاسی اثر و رسوخ ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جو بھروسہ برسوں سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں بدتر ہو چکا ہے۔
مرخیل نے کہا کہ اُن کی حکومت امریکہ کے ساتھ قریبی بات چیت جاری رکھے گی ایسے میں جب صدر 2015 کے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے متعلق فیصلے پر پہنچنے والے ہیں، جسے چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین نے ایران کے ساتھ طے کیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کو ہر 90 روز کے بعد امریکی کانگریس کو تصدیق کرنے پڑتی ہے آیا ایران معاہدے کی پابندی کر رہا ہے۔ اس کی اگلی ڈیڈلائن 12 مئی ہے۔
امریکی صدر نے اس معاہدے کے بارے میں بارہا حقارت کا اظہار کیا ہے، جسے وہ ’’ایک بے عزتی‘‘، ’’احمقانہ حرکت‘‘ اور ’’مذاکرات کے ذریعے اب تک ہونے والا بدترین معاہدہ‘‘ قرار دے چکے ہیں۔