پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر دونلڈ ٹرمپ نے 'افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔'
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ درخواست وزیر اعظم عمران خان کے نام لکھے گئے ایک خط میں کی ہے۔
پیر کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی صدر کی جانب سے بھیجی گئے خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل تلاش کرنا امریکی صدر کی اولین ترجیح ہے۔
دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں امریکی صدر کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ اور پاکستان دونوں کو نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
امریکی صدر نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو اپنے تعلقات کی تجدید اور ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے ان اقدامات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان تنازع کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔
تاہم امریکہ کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
صدر ڈونلڈ کی طرف سے وزیر اعظم کے نام خط ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زدافغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں افغانستان اور پاکستان خطے کے دیگر ملکوں سمیت 2سے 20 دسمبر تک دور کریں گے۔
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے منسلک معروف اینکر حامد میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کا کہ وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران بتایا کہ انہیں امریکہ کے صدر دونلڈ ٹرمپ کا ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان سے اپنا کردار ادا کرے۔
حامد میر کے بقول وزیراعظم نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ امریکی حکومت یہ چاہتی ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات میں میز پر لانے میں پاکستان اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے ۔
حامد میر نے کہا کی جب وزیر اعظم عمران خان سے صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق حالیہ بیانات اور بعد ازاں ٹوئٹر پر دونوں رہنماؤں کے درمیان سخت بنانات کے تبادلے کے معاملے پر سوال کیا گیا تو ان کے بقول عمرا خان نے کہا کہ اس خط کے بعد اب ماحول بہتر ہو گیا ہے اور پاکستان پوری کوشش کرے گا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا ممکنہ کردار ادا کرے۔
ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسلام آباد نے امریکہ کے لیے سوائے جھوٹے دعوؤں کے ایک چیز بھی نہیں کی، اس بیان سے وزیر اعظم عمران خان نے سخت الفاظ میں اختلاف کیا تھا ۔
امریکہ ایک عرصے سے پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اصرار کرتا آرہا ہے جن کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض مبینہ طور پر پاکستان میں موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ کا خط ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب افغان طالبان کو مزکرات کی میز پر لانے کی کوششیں تیز ہو گئی اور اسی سلسلے میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد تیسری بار افغانستان اور پاکستان سمیت بعض دیگر ملکوں کا دورہ کریں گے۔
دوسری طرف حال میں افغان صدر اشرف غنی نے جنیوا میں ایک کانفرنس کے موقع پر افغان طالبان کے بات چیت کے لیے ایک 12 رکنی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مطابق تازہ دورے کے دوران زلمے خلیل زاد پاکستان اور افغانستان کے علاوہ روس، ازبکستان، ترکمانستان، بلجئیم، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی جائیں۔
زلمے خلیل زاد گزشتہ دو ماہ کے دوران کم از کم دو بار قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کرچکے ہیں جس دوران انہوں نے واں ماہ اپنے دورۂ کابل کے دوران زلمے خلیل زاد نے امید ظاہر کی تھی کہ طالبان کے ساتھ اپریل 2019ء تک امن معاہدہ طے پاجائے گا۔