وائٹ ہاؤس کے ترجمان سیئن سپائسر سے پیر کو اُن کی پہلی نیوز بریفنگ کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں اور روسی حکومت کے ارکان کے درمیان ہونے والے مبینہ رابطوں کی تحقیقات سے متعلق بھی سوالات کیے گئے۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اب جب کہ ٹرمپ وفاقی انتظامیہ کے سربراہ ہیں تو کیا وہ اس تحقیقات کو روک دیں گے۔
سپائسر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "انہوں (ٹرمپ) نے کوئی بھی ایسا عندیہ نہیں دیا کہ وہ کسی بھی قسم کی تحقیقات کو روک دیں گے۔"
امریکہ کے خفیہ ادارے سنٹرل انٹلیجنس ایجنسی، وفاق تحقیاتی ادارے 'ایف بی آئی'، نینشل سکیورٹی ایجنسی اور محکمہ خزانہ نے روس کی طرف سے بڑھتی ہوئی مبینہ جاسوسی کی کارروائیوں بشمول کریملن کی طرف سے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کا حکم دینے کے معاملے تحققیات کی لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔
صدراتی انتخاب کی مہم کے دوران تفتیش کاروں نے ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کے قریبی لوگوں اور روسی حکومت کے ارکان کے درمیان ہونے والے مبینہ رابطوں کو اکھٹا کیا ہے۔
ایک موقر امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جنرل‘ نے سب سے پہلے یہ رپورٹ دی تھی کہ امریکہ انٹلیجنس کے اہلکار صدر ٹرمپ نئے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ریٹائرڈ مائیکل فلن اور امریکہ میں تعینات روسی سفیر سرگئی کیسلیاک کے درمیان فون پر ہونے والے گفتگو کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔
اس بارے میں سامنے آنے والے میڈیا رپورٹس کے مطابق فلن نے کسلیاک کو دسمبر میں اس وقت فون کیا، جب اوباما انتظامیہ نے امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ مداخلت کے ردعمل میں روس پر تعزیرات عائد کر دی تھیں۔
امریکہ کے انٹلیجنس عہدیدار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ روسی صدر ولادیمر پوٹن نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کے ساکھ کو نقصان پہچانے کے لیے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ای ملیز پر سائبر حملوں کا حکم دیا تھا۔
سپائسر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ فلن اور روسی سفیر کے درمیان دو بار فون پر رابطہ ہوا اور ان کی گفتگو کا محور چار امور تھے، صدر ٹرمپ اور روسی صدر کے درمیان فون پر رابطہ کروانا، خیر سگالی کے پیغامات کا تبادلہ کرنا اس کے علاوہ فلن نے روسی طیارے کے حادثے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور انہوں نے داعش کے خلاف امریکہ اور روس کے ممکنہ طور پر ایک ساتھ کام کرنے کے بارے میں بات کی۔
پیر کی بریفنگ کے دوران سپائسر سے جب روسی میڈیا کی اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اور روس شام میں مشترکہ فضائی کارروائیاں کر رہے ہیں تو سپائسر نے نامہ نگار سے پینٹاگون سے رابطہ کرنے کا کہا۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ "میرے خیال میں اگر کسی بھی ملک کے ساتھ مل کر داعش سے نمٹنے کا کوئی راستہ ہے، چاہیے یہ روس ہو یا کوئی اور ہو، اور اگر اس میں ہمارا مشترکہ مفاد ہے تو یقینی طور پر ہم وہ (راستہ) اختیار کریں گے۔"
دوسری طرف پینٹاگون کے ترجمان نے روسی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ" محکمہ دفاع کا شام میں فضائی کارروائیاں کرنے کے بارے میں روسی فوج سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔"