صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو یہ بات تسلیم کی ہے انہوں نے ملک کے قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے سے یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ زیر تفتیش تو نہیں ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو صدر ٹرمپ نے منگل کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا جس کی وجہ سے ایک سیاسی بحث شروع ہو گئی اور بعض حلقوں کے طرف سے آئینی بحران کے خدشہ کا اظہار کیا گیا۔
ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی نیوز' سے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اس وقت کے ’ایف بی آئی‘ کے ڈائریکٹر کومی سے پوچھا تھا کہ "اگر یہ ممکن ہے تو کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا میں زیر تفتیش ہوں؟ انہوں نے کہا، آپ زیر تفتیش نہیں ہیں۔"
صدر ٹرمپ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کومی نے حلف پر یہ کہا تھا کہ 2016 کے انتخاب کی صدارتی مہم اور روسی حکومت کے ساتھ ممکنہ ساز باز سے متعلق چھان بین جاری ہے تو صدر نے ٹی وی انٹرویو میں یہ بات دہرائی کہ "میں زیر تفتیش نہیں ہوں"۔
قانونی امور کے تجزیہ کار بریڈلے موس جو قومی سلامتی کے امور کے ماہر بھی ہیں نے اس طرح کے تبادلہ خیال کو "بہت ہی غیر مناسب" قرار دیا ہے۔
موس نے وی او اے کو بتایا کہ "ایک ایسی لکیر ہونی چاہیئے جو پار نہیں کی جاتی ہے بشمول ایف بی آئی سے یہ پوچھنا کہ کیا آپ خود تفتیش کا ہدف ہیں۔"
تاہم موس نے مزید کہا کہ یہ "کہنا مشکل ہے کہ کیا ایسا کرنا درحقیقت غیر قانونی ہے کیونکہ کومی نے مبینہ طور پر جواب میں یہ کہا تھا کہ ٹرمپ زیرتفتیش نہیں ہیں۔"
ٹرمپ نے جمعرات کو انٹرویو میں اس موقف پر زور دیا کہ انہوں نے کومی کو بر طرف کرنا تھا چاہے محکمہ انصاف کے اعلیٰ عہدیداروں نے ایسا کرنے کی سفارش نا بھی کی ہوتی۔
کومی کی قیادت میں ’ایف بی آئی‘ ٹرمپ کی مہم اور روسی عہدیداروں کے درمیان رابطوں اور ماسکو کی طرف سے 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں ممکنہ مداخلت کی معاملے کی تحقیقات کر رہی تھی۔
دوسری طرف میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ کومی کو اس لیے برطرف کیا گیا کیونکہ وہ صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کے معاملے کی تفتیش کو تیز کرنا چاہتے تھے۔
اس برطرفی کے بعد ڈیموکریٹس روس کے معاملے کی آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ 20 امریکی ریاستوں کے اٹارنی جنرل نے ایک خصوصی مشیر مقرر کرنا کے مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف بعض ریپبلکن بھی کومی کے ہٹائے جانے کے وقت اور وجوہات سے متعلق تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
کومی کو اوباما نے 2013 میں اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹروں کو سیاسی مداخلت سے بچانے کے لیے 10 سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جاتا ہے، تاہم صدور کو انہیں عہدے سے ہٹانے کا حق حاصل ہے۔
اس سے قبل صرف ایک بار ایک ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو 1993ء میں صدر بل کلنٹن نے ویلئیم سیشنز کو برطرف کر دیا تھا جنہوں نے اخلاقی وجوہات کی بنا پر رضاکارانہ طور پر اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔
جمعرات کو سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی میں ایک سماعت کے دوران ایف بی آئی کے قائم مقام ڈائریکٹر اینڈر یو میکابے نے قانون سازوں کو صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت اور ٹرمپ کی مہم سے ممکنہ رابطوں کے معاملے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی مداخلت کی کوشش سے قانون سازوں کو آگاہ کرنے کا وعدہ کیا۔
میکابے نے کہا کہ "آپ ایف بی آئی کے مرد اور خواتین کو اپنا صیح کام کرنے سے نہیں روک سکتے ہیں۔"
انہوں نے وائٹ ہاؤس کے ان دعوؤں کو مسترد کیا کہ کومی ایف بی آئی کے عملے کا اعتماد کھو بیٹھے تھے۔
میکابے نے کہا کہ"میں آپ کو اعتماد سے بتا سکتا ہوں کہ ایف بی آئی کے عملے کی ایک اکثریت، ایک بہت بڑی اکثریت کے ڈائریکٹر کومی کے ساتھ گہرے اور مثبت تعلقات تھے۔"
دوسری طرف وائٹ ہاؤس کی نائب پریس سیکرٹری سارہ ہکابی سینڈرز نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی بریفنگ کے دوران میکابے کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے "ایف بی آئی میں کام کرنے والے کئی افراد سے یہ سنا ہے جو صدر کے فیصلے پر خوش ہیں" جس کے تحت کومی کو برطرف کیا گیا ہے۔