ٹرمپ پاکستانی قیادت سے ملاقات کے منتظر، پاکستان کا مثبت جواب

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں جو اُن کے بقول جلد ہو سکتی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این 'کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ بات بدھ کو واشنگٹن میں اپنی کابینہ کے اجلاس کے دوران کہی ہے ۔

ادھر پاکستان نے ٹرمپ کے حالیہ بیان کے جواب میں کہا ہے کہ اسلام آباد امریکی قیادت کے ساتھ مثبت بات چیت کا منتظر ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے یہ بات جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران صدر ٹرمپ کے بیان سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔

ترجمان نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ کا تازہ بیان ان کی یکم جنوری 2018 ء کے ٹویٹ کے برعکس ہے اور ہم امریکہ کے ساتھ قیادت کے سطح پر مثبت بات چیت کے منتظر ہے۔‘

یاد رہے کہ یکم جنوری 2018ء کو صدر ٹرمپ نے اپی ایک ٹویٹ میں پاکستان پر دھوکہ دہی کا ا لزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم روکنے کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے بدھ کو ایک بار پھر اپنی کابینہ کے اجلاس کے دوران پاکستان کی امداد معطل کرنے کا معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی امداد اس لیے روکی تھی کیونکہ ان کے بقول انہوں نے دشمنوں کو پناہ دی اور وہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔

تاہم صدر ٹرمپ نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہا ں ہیں اور وہ پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کے منتظر ہیں جو ان کے بقول جلد ہو سکتی ہے۔

امریکہ یہ الزام عائد کرتا آرہا ہے کہ پاکستان میں ان عسکریت پسندوں کے ٹھکانے مبینہ طور پر موجود ہیں جو سرحد پارافغانستان میں غیرملکی افواج پرحملے کرتے ہیں ۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے ۔

اسلام آباد کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس نے تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی ہے اور اس کے ہاں شدت پسندوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب افغانستان میں قیام امن کی امریکی کوششوں میں تیزی آئی ہے اور گزشتہ ماہ ہی امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے ابوظہبی میں افغان طالبان کی نمائندوں سے بات چیت کی ہے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور مہاجرین کی واپسی

افغانستان سے امریکہ افواج کے انخلا کے بارے میں پوچھے گیے ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ افغانستان سے امریکہ افواج کا انخلا کا معاملہ بھی افغان عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔ تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان میں کوئی طاقت کا خلا پید ا نہ ہو۔

ترجمان دفتر خارجہ محمد فیصل

ترجمان نے کہا کہ افغانستان کا قریبی ہمسایہ ہونے کے ناتے پاکستان اس بات میں دلچپسی رکھتا ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی پیش رفت خطے میں امن و استحکام کا باعث بنے۔

ترجمان نے ایک بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ’پاکستان کی افغانستان میں امن کی خواہش حقیقت پر مبنی ہے تاکہ افغانستان میں مہاجرین کی واپسی ہو سکے اور خطے میں خوشحالی کے دور کا آغاز ہو سکے۔‘

یاد رہے کہ چند روز قبل میڈیا میں امریکی عہدیداروں کے حوالے سے ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ امریکہ افغانستان میں تعینات اپنے 14 ہزار فوجی اہلکاروں میں سے تقریباً نصف کے انخلا پر غور کر رہا ہے۔

تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔