قزاقستان: شام جنگ بندی مذاکرات، بطور مبصر امریکی ایلچی شریک ہوں گے

فائل

وائٹ ہاؤس کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں سربراہان نے محفوظ علاقہ تشکیل دینے سے متعلق گفتگو کی، تاکہ ’’انسانی بنیادوں پر اور متعدد وجوہ کی بنا پر ضروری دیرپہ امن حاصل ہو سکے‘‘

روس کی سرپرستی میں بدھ اور جمعرات کو قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام کی جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایلچی بطور مبصر شرکت کریں گے۔

اِس بات کا اعلان منگل کے روز جاری ہونے والے وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کیا گیا، جس سے قبل صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اُن کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے درمیان گفتگو ہوئی۔

منگل کے روز کی ٹیلی فون کال، جسے وائٹ ہاؤس نے ’’انتہائی اچھی گفتگو‘‘ قرار دیا، امریکی لڑاکا جہازوں کی جانب سے شام کے فوجی اڈے کو نشانہ بنائے جانے کے بعد دونوں سربراہان کے مابین پہلا براہِ راست رابطہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ فضائی اڈا دونوں شامی افواج اور اُس کے روسی اتحادی استعمال کرتے ہیں، جسے چار اپریل کو درجنوں کروز میزائل لگے۔

ٹرمپ نے امریکی میزائل حملے کو شام کے کیمیائی اسلحے کے استعمال کے معاملے سے جوڑا، جِس میں تقریباً 100 شہری ہلاک ہوئے؛ اُسے براہِ راست روس سے مسنلک بتایا گیا جس پر روس کا ناراضگی کا ردِ عمل سامنے آیا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں سربراہان نے محفوظ علاقہ تشکیل دینے سے متعلق گفتگو کی، تاکہ ’’انسانی بنیادوں پر اور متعدد وجوہ کی بنا پر ضروری دیرپہ امن حاصل ہو سکے‘‘۔

اس سے قبل صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے دوران، امریکہ ’سیف زون‘ تشکیل دینے کے معاملے پر سرد مہری کا مظاہرہ کر چکا ہے، جب یہ کہا گیا کہ اس علاقے کی صورت حال گنجلک ہے، جب کہ درکار افراد کی نفری فراہم کرنا ممکن نہیں۔

تاہم، اس خیال کے حامی کہتے ہیں کہ شام کے اندر محفوظ علاقہ قائم کرنے سے خطے کے دیگر ملکوں پر بوجھ کم ہوگا، جہاں اس وقت 50 لاکھ سے زیادہ مہاجرین مقیم ہیں۔

ایسے میں جب آستانہ مذاکرات کا آغاز ہوا، شمالی شام میں ایک بڑا دھماکہ ہوا جس میں کم از کم پانچ افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔

برطانیہ میں قائم ’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا ہے کہ یہ دھماکہ باغیوں کے زیر قبضہ، اعزاز کے قصبے میں ہوا، جو کار بم حملے کے نتیجے میں ہوا۔

باغیوں کے لیے اعزاز اہمیت کا حامل علاقہ ہے، جو صدر بشار الاسد کے مخالف ہیں، جو رسد کی فراہمی کا کلیدی راستہ ہے، اور لڑاکوں اور سرگرم مخالفین کا مرکز ہے۔

اس سے قبل اعزاز میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری داعش کا شدت پسند گروپ تسلیم کر چکا ہے، لیکن بدھ کے روز کے حملے کا فوری طور پر کسی نے دعویٰ نہیں کیا۔