امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمر پوٹن نے ہفتے کو فون پر طویل گفتگو کی اور دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ دونوں راہنماؤں نے داعش کو شکست دینے کی کوششوں اور شام اور دنیا بھر میں امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
صدر ٹرمپ کے 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد دونوں راہنماؤں کے درمیان یہ پہلی براہ راست ٹیلی فونک گفتگو تھی۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ ایک گھنٹے پر محیط گفتگو "مثبت" اور واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان "تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ایک اہم آغاز" ہے جو حالیہ مہینوں میں بہت زیادہ تناؤ کا شکار رہے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے کہا کہ "صدر ٹرمپ اور صدر پوٹن دونوں پراُمید ہیں۔۔۔کہ آج کی فون کال کے بعد دونوں فریق دہشت گردی سے نمٹنے اور باہمی مفاد کے معاملات کی طرف تیزی سے پیش رفت کر سکتے ہیں۔"
کریملن سے نشر ہونے والی خبروں میں بھی تقریباً وائٹ ہاؤس کے پیغام کی بازگشت سنائی دی۔
ٹرمپ نے ہفتے کو ہی جاپان کے وزیر اعظم شنزو ایبے، جرمن چانسلر اینگلا مرکل، فرانسیسی صدر فرانسواں اولاند اور آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبل سے بھی فون پر بات کی۔
امریکی عہدیداروں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ٹرمپ اور پوٹن کی بات چیت سے امریکہ اور روس کے مابین تعلقات کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی جنہیں "ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔"
دونوں جانب سے امریکہ کی طرف سے روس پر عائد کی جانے والی تعزیرات یا انہیں نرم کرنے سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس بات چیت سے قبل تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ قیاسی آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ شاید دونوں راہنماؤں کے مابین اس بارے میں بھی بات ہو۔
صدر ٹرمپ نے جمعہ کو برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ماسکو پر عائد تعزیرات کو نرم کرنے کی بات "بہت ہی قبل از وقت" ہے۔
سابق صدر براک اوباما نے روس کی طرف سے کرائیمیا پر قبضہ کرنے کے بعد کئی تعزیرات عائد کر دی تھیں جن میں ٹیکنالوجی کی منتقلی اور روسی عہدیداروں پر عائد کی جانے والی سفری پابندیاں بھی شامل تھیں۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے دونوں صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو کی مختصر تفصیل کے بارے میں جاری ہونے والے بیان سے پہلے کریملن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے بین الاقوامی معاملات "بشمول دہشت گردی کے خلاف لڑائی، مشرقٰ وسطیٰ کی صورت حال، عرب اسرائیل تنازع، سلامتی کی صورت حال اور جوہری عدم پھیلاؤ، ایرانی جوہری پروگرام اور جزیرہ نما کوریا " سے متعلق " تفصیل سے بات چیت کی"۔
ماسکو کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بات چیت میں "یوکرین کے بحران ۔۔ کے بارے میں بھی بات ہوئی"۔
" ان تمام اور دیگر معاملات پر شراکت داری کو قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔"