صدر ٹرمپ کے حامیوں کا واشنگٹن ڈی سی میں احتجاج
ہفتے کو صدر کی حامی لگ بھگ ایک درجن تنظیموں اور گروپس نے دارالحکومت میں احتجاج کی کال دی تھی جس میں شرکت کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے لوگ دارالحکومت میں جمع ہوئے۔
ہفتے کو واشنگٹن ڈی سی میں احتجاج سے لگ بھگ دو گھنٹے قبل صدر ٹرمپ اپنے قافلے کے ہمراہ دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ پینسلوینیا ایونیو سے گزرے اور وہاں موجود مظاہرین کو دیکھ کر مسکرائے اور انہیں ہاتھ ہلایا۔
بعد ازاں صدر کا قافلہ واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں موجود ان کے ذاتی گالف کلب روانہ ہو گیا جہاں انہوں نے اطلاعات کے مطابق گالف کھیلی۔
امریکی نشریاتی ادارے 'فوکس نیوز' کے مطابق گالف کلب سے وائٹ ہاؤس واپسی پر صدر ٹرمپ ایک بار پھر اپنے حامیوں کے درمیان سے گزرے جنہوں نے صدر کو دیکھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کی۔
صدر کے حق میں ہونے والے اس احتجاج کی میڈیا سے وابستہ کئی قدامت پسند شخصیات اور سفید فام قوم پرستوں نے بھی حمایت کی تھی۔
صدر کے حامیوں کے احتجاج کے مقابلے میں ان کے مخالفین نے بھی جوابی مظاہروں کا اعلان کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران بعض مقامات پر فریقین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
واشنگٹن ڈی سی پولیس کے مطابق ہاتھا پائی اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں کم از کم 10 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
امریکہ کے دارالحکومت میں یہ احتجاج ایسے وقت ہوا ہے جب ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن غیر حتمی نتائج کے مطابق صدر منتخب ہونے کے لیے درکار الیکٹورل کالج کے 270 ووٹوں کا ہدف عبور کر چکے ہیں۔
اب تک امریکہ کی 50 میں سے 49 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہو چکا ہے جن کے مطابق جو بائیڈن 290 الیکٹورل ووٹوں کے ساتھ اپنے حریف پر فیصلہ کن برتری حاصل کر چکے ہیں۔
الیکٹورل کالج کے ووٹوں کے اس واضح فرق کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے ڈیموکریٹ حریف کی غیر سرکاری فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
صدر اور ان کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ کئی ایسی ریاستوں میں انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی جہاں دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔
صدر کی انتخابی مہم نے ایسی کئی ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی ہیں جب کہ ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے بعض ووٹ منسوخ کرانے کے لیے عدالتوں سے بھی رجوع کیا ہے۔