|
ویب ڈیسک۔ امریکہ میں ہر چوتھے موسم گرما میں ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں صدرارتی نامزدگی کے سلسلے میں اپنے کنونشن منعقد کرتی ہیں۔ اس بار جولائی میں ریپبلکنز سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی پارٹی کی جانب سے نامزدگی کی فہرست میں سب سے اوپر رکھنے کے لیے ملواکی میں کنونشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ جب کہ ڈیموکریٹس بھی اگلے مہینے صدر جو بائیڈن کو اگلے عہدے کی مدت کے لیے نامزد کرنے کے لیے رسمی کارروائیاں کرنے والے ہیں۔
میڈیا میں صدارتی نامزدگی سے متعلق دوسرے سیاسی اجتماع پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔
بڑی شان و شوکت والے کنونشنز کے مقابلے میں آزادی پسند لبرٹیرینز کی جانب سے صدراتی نامزدگی کی تقریب کم درجے کی ہوتی ہے اور اس میں خاص جوش و خروش بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اس سال صورت حال کافی مختلف ہے اور لبرٹیرین بھی جوش و جذبے سے بھرپور نظر آ رہے ہیں اور صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے زیادہ تر ریاستوں میں اپنے اجتماعات کریں گے۔
رائے عامہ کے اب تک کے جائزوں کے مطابق بائیڈن اور ٹرمپ میں سخت مقابلہ چل رہا ہے، جب کہ آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کچھ ایسی ریاستوں میں، جن کا انتخابی جھکاؤ کسی بھی امیدوار کی جانب جا سکتا ہے، 10 فی صد سے زیادہ ووٹ لے رہے ہیں۔
لبرٹیرین امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی چھوٹی تعداد یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اگلی مدت کے لیے صدر کا انتخاب بائیڈن یا ٹرمپ میں سے کون جیتے گا۔
لبرٹیرین پارٹی کے صدارتی امیدواروں میں سے کوئی بھی معروف اور جانا پہچانا نام نہیں ہے۔ ان میں نیوآرلینز کے سرجن چارلس بیلی، تفریحی شعبے سے تعلق رکھنے والے اور ایک ٹیک کمپنی قائم کرنے والے لیرس مپسٹیڈ، جارجیا سے تعلق رکھنے والے سرگرم سیاسی کارکن چیز اولیور اور ایک ماہر معاشیات مائیک ٹرماٹ ہیں۔ اب یہ تقربیاً ایک ہزار مندوبین پر منحصر ہے کہ صدارتی ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے کس امیدوار کو آگے کرتے ہیں۔
پارٹی کا نام لبرٹیرین کیوں ہے؟
لبرٹیرینز نے یہ نام 18 صدی کی اس آزادی پسند تحریک سے لیا ہے جس نے یورپ اور کئی دوسرے مقامات پر بادشاہت، غلامی اور مذہبی ظلم و جبر کے خلاف جنگیں لڑیں اور انفرادی آزادی کے فلسفے کو آگے بڑھایا۔
امریکہ میں موجود لبرٹیرین پارٹی کو اپنے اندر بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اس پارٹی کے اندر موجود ایک بڑا گروپ جو ’میسز کاکسس‘ کہلاتا ہے، عمومی طور پر ایک سابق مارکسٹ اسکالر مائیکل ریکٹن ورلڈ کے فلسفے کی طرف جھکاؤ رکھنے والے صدارتی امیدوار کی حمایت کرتا ہے۔ یہ معاشی نظریہ آزاد منڈی کے سرمایہ داری نظام کی حمایت کرتا ہے۔
ٹرمپ کا جھکاؤ لبرٹیرین کی طرف کیوں ہے؟
ڈینور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر سیٹھ مارسکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ الیکشن میں ووٹوں کا فرق بہت کم ہو گا اور ان ریاستوں کے چند فیصد ووٹ، جنہیں سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے، نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماسکیٹ نے کہا کہ ٹرمپ کے ایجنڈے میں ایک چھوٹی اور کم جارحانہ نظریات کی وفاقی حکومت کے آزادی پسندانہ نظریات رکھنے والی پارٹی سے مطابقت دیکھنا مشکل ہے۔ لیکن وہ لبرٹیرین پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے اٹھائے جانے والے کچھ اور مسائل سے ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں۔
کچھ آزادی پسند، ٹرمپ کی جانب سے اپنی سیاسی حدود میں داخلے کو محض توجہ حاصل کرنے کی ایک اور چال کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے بڑے اور پرجوش جلسوں سے خطاب کرنے والے سابق صدر کو آزاد سیاسی ہجوم کے کچھ رویے حیران کر سکتے ہیں۔
ورجینیا سے تعلق رکھنے والے ایک لبرٹیرین مندوب جیمز جان، جو تعمیراتی شعبے سے منسلک ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ٹرمپ کے لیے وہ کچھ کہنے کا موقع ہے، جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہاں ممکنہ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو انہیں نارمل انداز میں نہ سننا چاہیں۔
امریکہ میں لبرٹیرینز کے سب سے معروف تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے صدر اور چیف ایگزیکٹو پیٹر گوئٹلر کہتے ہیں کہ اب یہ پارٹی آزادی پسند نہیں رہی۔ اس ہفتے ٹرمپ کا اس میں ظاہر ہونا لبرٹیرین پارٹی کے بارے میں اتنا کچھ کہہ رہا ہے جتنا کہ وہ اس کے بارے میں کہتے ہیں۔
پارٹی کو اپنی تاریخ کے پورے سفر میں اتار چڑھاؤ اور کچھ پریشان کن لمحات کا بھی سامنا رہا ہے۔ لیکن اس کے مسائل کا زیادہ تر تعلق غیر پیشہ ورانہ رویے اور نظم و ضبط کے فقدان سے ہے جس کے اس پر دو پارٹی نظام میں ایک تیسری چھوٹی پارٹی کی حیثیت سے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ٹرمپ الیکشن میں بائیڈن کو کوئی موقع دینا نہیں چاہتے
گزشتہ ہفتے نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے خطاب میں ٹرمپ کا لبرٹیرینز کی جانب عملی جھکاؤ نظر آیا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ بھی عمومی طور پر سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کی کچھ چیزیں ہم سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن ہمیں ان کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا۔ اس کے قطع نظر کہ کون الیکشن لڑ رہا ہے، وہ ہر سال 3 فی صد ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ اور ہمیں وہ 3 فی صد ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم بائیڈن کو جیتنے کا موقع نہیں دے سکتے۔
1972 میں لبرٹیرینز کی جانب سے پہلی صدارتی نامزدگی کے بعد ان کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ 2016 میں اس وقت ہوا جب نیو میکسیکو کے سابق گورنر گیری جانسن نے مقبول ووٹوں میں 3.28 فی صد ووٹ حاصل کیے۔
SEE ALSO: میری لینڈ، ویسٹ ورجینیا اور نبراسکا کے پرائمریز کیا رجحان ظاہر کرتی ہیں؟ورماؤنٹ سے لبرٹیرین ڈیلیگٹ این لپلٹیئر کہتی ہیں کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ٹرمپ لبرٹیرینز کے 3 فی صد ووٹوں کا ایک بڑا حصہ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں یہ سوچ سکتی ہوں کہ وہ لبرٹیرین ووٹ لے لیں گے۔ تو میرا جواب نفی میں ہے۔ یقیناً کچھ لبرٹیرینز انہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ کیا میں بھی ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں میں شامل ہوں گی؟ تو میرا جواب ہے کہ نہیں۔
لبرٹیرین کے کنونشن میں صدر بائیڈن کو بھی خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے معذرت کر لی۔ بائیڈن کی انتخابی مہم کی جانب سے اس انکار اور تیسری پارٹی تک ٹرمپ کی رسائی سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
وی او اے نیوز