امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جمعرات کے روز فلوریڈا میں واقع صحت افزا مقام پر چین کے صدر شی جن پنگ کا خیرمقدم کریں گے، جو دو روزہ دورہٴ امریکہ کے لیے امریکہ آنے والے ہیں؛ جس دوران، امریکی سربراہ کو توقع ہے کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کو تشکیل دینے کے معاملے پر چینی سربراہ پر دباؤ ڈالیں گے۔
وضاحت کیے بغیر، ٹرمپ نے اِس ہفتے متنبہ کیا تھا کہ ’’اگر چین شمالی کوریا کا مسئلہ حل نہیں کرے گا، تو ہم کریں گے‘‘۔
اُن کی انتظامیہ چین کے بینکوں اور اداروں پر تعزیرات لگانے پر غور کر رہی ہے، جو شمالی کوریا کو بین الاقوامی رقوم تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔
چین شمالی کوریا کو اُس کی ضروریات کا سارا ایندھن، غذا، استعمال کی اشیاٴ اور اُس کے ہتھیاروں کے پروگرام کی تشکیل کے لیے درکار تمام خام مال فراہم کرتا ہے۔
تاہم، چین کو شمالی کوریا کے لیڈر، کِم جونگ اُن کے عزائم پر پریشانی بھی لاحق ہے، جنھوں نے اپنے چھ برس کی حکمرانی کے دوران ابھی تک چین کا دورہ نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف عائد کردہ تعزیرات کے سلسلے کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا، جو اپنے میزائل کے تجربے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اُس نے میزائل کا تازہ ترین تجربہ پچھلے ہفتے کیا ہے۔
ٹرمپ اور شی، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کی نگرانی کرتے ہیں، یہ اُن کی پہلی ملاقات ہوگی۔ وہ جمعے کے دِن مذاکرات کریں گے، جس سے قبل، جمعرات کو ایک عشائیے میں شرکت کریں گے، جو ٹرمپ کے ’مار اے لاگو‘ کی جائیداد پر منعقد ہوگا، جس میں اُن کی بیگمات بھی شریک ہوں گی۔
بدھ کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تشکیل دینے کے پروگرام سے’’ نمٹنا بہت ہی آسان ہوتا اگر اِسے کئی سال قبل حل کیا جاتا‘‘۔
تاہم، امریکی سربراہ نے، جنھیں عہدہ سنبھالے ہوئے تین ماہ سے کم عرصہ ہوا ہے، کہا ہے کہ وہ یہ چیلنج قبول کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے بقول، ’’ہمیں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ ہمارا سابقہ ایسے شخص سے ہے جو درست کام نہیں کر رہا، اور اب یہ میری ذمہ داری ہے‘‘۔