امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت کے دوران اُن کے وکلا نے سینیٹ کو بتایا کہ سیاسی مفادات کے لیے امریکی فوجی امداد کی تجارت کا معاملہ اگر ثابت ہو بھی جائے تو بھی یہ مواخذے کی بنیاد نہیں بنتا۔
ٹرمپ کے وکلائے صفائی نے اپنی ٹیم کے ایک رکن، سابق پروفیسر ایلن درشووٹز پر انحصار کیا ہے، جنھوں سینیٹروں کو بتایا کہ ہر سیاست دان اپنے مفاد کو عوامی مفاد ظاہر کرتا ہے۔ یوکرین کے صدر کو فون کا معاملہ مواخذے کا موجب نہیں بنتا۔
ڈیموکریٹس نے سینیٹ کو باور کرایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہادت کے لیے مزید گواہان کو طلب کیا جائے۔ لیکن ری پبلکن ارکان نے اپنی توجہ مواخذے کے مقدمے کے خاتمے اور صدر کو بری الذمہ قرار دینے پر مبذول رکھی۔
ری پبلکنز کے مطابق "اب یہ چند ہی روز کا معاملہ ہے۔"
یہاں تک کہ وکلائے صفائی نے صدر کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کے نئے انکشافات کے توڑ کا دعویٰ کیا۔ جمعرات کے روز ہونے والے سوال و جواب کی نشست کے دوران، صدر کے وکلا نے سماعت کو طول دینے سے روکنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر پہلے ہی سمع خراشی سے بیزار آ چکے ہیں۔
ڈیموکریٹس نے اصرار کیا کہ بولٹن کی آنے والی کتاب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے استدلال پیش کیا کہ بولٹن نے خود ٹرمپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ یوکرین سے فوجی امداد اس وقت تک روکے رکھنے کے خواہاں تھے جب تک وہ جو بائیڈن اور ان کے بیٹے، ہنٹر بائیڈن کے خلاف تفتیش پر رضامند نہیں ہو جاتے؛ یہ چیز اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتی ہے، جو مواخذے کے الزمات میں شامل ہے۔
گواہان کو طلب کیے جانے کے معاملے پر رائے دہی جمعے کو متوقع ہے۔
ایک موقع پر، جب چیف جسٹس جان رابرٹس سوالات پڑھ رہے تھے، ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر، ٹیڈ کروز نے پوچھا کہ آیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے اگر ’کچھ دو کچھ لو‘ کا معاملہ ثابت ہوتا ہو؟
درشووٹز نے کہا ’نہیں'۔ انھوں نے کہا کہ متعدد سیاست دان اپنے دوبارہ انتخاب کو عوام کی بھلائی اور فائدے سے تعبیر کرتے ہیں۔
بقول ایلن درشووٹز، ’’یہی وجہ ہے کہ ایک صدر کا نفسیاتی تجزیہ کیا جانا خطرناک امر ہو گا‘‘۔
اس جواب پر ایوان نمائندگان کے مدعی رکن، ایڈم شف، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، حیرت زدہ رہ گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’’کچھ دو کچھ لو‘ کے تمام معاملات یکساں نوعیت کے نہیں ہوا کرتے۔ ہو سکتا ہے چند قابل قبول ہو سکتے ہوں۔
ایڈم شف نے کہا کہ ’’اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ ایک رہنما کے اندر جھانک سکیں یہ طے کرنے کے لیے کہ ان کے دل میں کیا ہے۔ ایک چیز ہو سکتی ہے۔ آپ جان بولٹن سے معلوم کر لیں‘‘۔