کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے کہا ہے کہ اُن کی جنگ صرف پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ تاثر درست نہیں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑ رہے ہیں یا وہ القاعدہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی جانب سے بھجوائے گئے سوالنامے کے نامعلوم مقام سے دیے گئے جوابات میں نور ولی محسود نے دعویٰ کیا کہ افغان طالبان کی افغانستان میں کامیابیاں پوری اُمت مسلمہ کی کامیابی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بھائی چارے، ہمدردی اور اسلامی اُصولوں کے تحت ہیں۔
نور ولی محسود کا مزید کہنا تھا کہ ایک مسلمان کی کامیابی دوسرے مسلمان کے لیے بھی مددگار ہوتی ہے۔ لہذٰا یہ وقت بتائے گا کہ افغان طالبان کی افغانستان میں کامیابیاں تحریک طالبان کے لیے کتنی سود مند ہوں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہماری لڑائی صرف پاکستان اور اس کی فوج کے ساتھ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد ہم پاکستانی قبائلی اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیں گے اور انہیں خود مختار بنائیں گے۔"
نور ولی محسود کے بیان پر وٹس ایپ پر صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ "ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری پالیسی کے تحت کسی شخص یا گروہ کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔"
مفتی نور ولی محسود 2018 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کی افغانستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ بنے تھے۔
تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد 2007 میں ڈالی گئی تھی جس کے بعد اس نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت پاکستان کے اندر کئی دہشت گرد حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بھی حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں 145 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں بیشتر بچے تھے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے پاکستان کے علاقے سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بعد حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں کمی آئی تھی۔
البتہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے قبل ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکزی امیر مفتی نور ولی کی ناراض دھڑوں کو منا کر انہیں تنظیم میں واپس لانے اور ملک میں فعال القاعدہ اور لشکرِ جھنگوی سے وابستہ گروہوں کو بھی ٹی ٹی پی میں شامل کرنے کی کوششوں کو اس سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور افغان طالبان کی پیش قدمی نہ صرف پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی بلکہ دنیا میں پھیلے ہوئے جہادی گروہوں کے لیے ایک اہم موقع ہے جو ان کی تقویت اور بیداری کا سبب بن رہا ہے مگر اس کے اصل نتائج مستقبل میں سامنے آئیں گے۔
طالبان کے گروہوں کے امور سے باخبر سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسعید نے وائس آف امریکہ کے لیے صحافی ضیا الرحمٰن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’افغان طالبان کی پیش قدمی کے حوالے سے جہادیوں کا حالیہ بیانیہ ٹی ٹی پی کی فکری تقویت کا سبب بھی بن رہا ہے جس سے ان کی صفیں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔"
ان کے بقول ٹی ٹی پی کی جانب سے اس بیانیے کا پرچار کیا جا رہا ہے کہ اگر افغان طالبان امریکہ جیسی عالمی طاقت کو مزاحمت کے بعد مذاکرات کی میز پر لا کر اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں تو ٹی ٹی پی بھی اپنے دشمن یعنی ریاستِ پاکستان کو شکست دے سکتی ہے۔
اسلامی شدت پسند تنظیموں کے لٹریچر پر تحقیق کرنے والے اسلام آباد میں مقیم محمد اسرار مدنی کہتے ہیں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی جدید ریاست، جمہوریت، ووٹنگ حتیٰ کہ خودکش حملوں جیسے بنیادی مسائل پر القاعدہ ہی کے بنیادی لٹریچر کو استعمال کرتے ہیں۔
ان کے بقول افغان طالبان پاکستان کی حدود میں کارروائیاں نہیں کرتے اس لیے پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ وہ ریاستِ پاکستان کے خلاف نہیں لیکن افغان طالبان پاکستان کے کہنے پر افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے بھی گریز کرتے ہیں۔