بحر الکاہل پار تجارت کو فروغ دینے کے لیے مجوزہ اہم سمجھوتے پر جاری مذاکرات معاہدہ طے کیے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔
تاہم، جمعے کی رات گئے ایک خباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی تجارت سے وابستہ نمائندے، مائیکل فورمن نے کہا ہے کہ بات چیت میں شامل 12 ملکوں نے اہم پیش رفت حاصل کی ہے اور اُنھیں پورا یقین ہے کہ سمجھوتا جلد طے پا جائے گا۔
فورمن کے بقول،'ایک ہفتے کے کارآمد اجلاسوں کے بعد بات چیت میں شرکا نے خاصی پیش رفت حاصل کی ہے اور وہ باقی ماندہ محدود معاملات کو طے کرنے پر وقت صرف کریں گے، جس کے بعد 'ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ' (ٹی ٹی پی) معاہدہ تکمیل کے مراحل سے گزرے گا۔
بحرالکاہل پارٹنرشپ کے لیے برسوں سے مذاکرات کیے جاتے رہے ہیں اور توقع ہے کہ سمجھوتا تکمیل کے آخری مراحل کے قریب ہے۔
اِس ہفتے، وزرائے تجارت نے ہوائی میں بات چیت کی۔ ٹی ٹی پی کے ممالک عالمی معیشت کا 40 فی صد کاروبار کرتے ہیں۔
سمجھوتے پر دستخط کے لیے ابھی تاریخ کا تعین نہیں ہوا، لیکن وزرائے تجارت کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ مسائل پر جلد گفتگو کی جائے گی، جس کے بعد دستخط ہوں گے۔
یہ سیاسی نوعیت کے حساس معاملات ہیں، جن میں جاپان کو چاول کی مزید درآمد، امریکہ کو چینی کی زیادہ درآمدات، کینیڈا کی 'ڈیری' مصنوعات تک زیادہ رسائی کی اجازت اور اگلے 12 برس تک معروف ادویات کے حقوق دانش کا تحفظ نمایاں ہیں۔
پچھلے تجارتی سمجھوتے تجارت پر محصول کو کم کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کی غرض سےشرائط میں نرمی برتتے تھے۔
جاپانی وزیر معیشت، اکیرا اماری نے جمعے کے دِن بتایا کہ حقوق دانش کی نوعیت کے مسائل پر سارے شرکا الجھے رہے، جس کے باعث سمجھوتے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ شریک وزرائے تجارت نے اس امر کی تائید کی کہ سمجھوتا جلد طے کرنے کی کوششوں کو جاری رکھا جائے۔
کچھ ملکوں میں مجوزہ بحرالکاہل تجارتی سمجھوتے کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں، جب کہ امریکہ میں بھی یہ ایک متنازع معاملہ ہے۔
امریکی کانگریس میں بھی سخت سیاسی لے دے کے بعد تجارتی معاملے پر چند ووٹوں کی سبقت سے بل منظور کیا گیا تھا۔
سمجھوتا طے ہونے میں ناکامی امریکی صدر براک اوباما کے لیے پریشان کُن ہوگی۔
اس سمجھوتے کو امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایشیا میں معاشی برتری کا حصول اور خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو متوازن بنانے کا ایک موقع قرار دیا جا رہا ہے۔