کانگریس میں ڈیموکریٹک ارکان نے بدھ کے روز صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے 2020 کے صدارتی انتخاب میں ان کے کلیدی حریف سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کیلئے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالنے کی خاطر ایک سکیم تیار کی۔
100 ارکان پر مشتمل سینیٹ کے روبرو صدر ٹرمپ کے مواخذے کے حوالے سے ابتدائی دلائل پیش کیے جانے کے پہلے روز کانگریس میں ایڈم شیف نے کہا کہ مواخذے کی شقوں پر ووٹنگ سے اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ اقوام عالم میں امریکہ کہاں کھڑا ہے۔
ایوانِ نمائندگان کے مقرر کردہ مواخذے کے سات منیجرز نے سینیٹ میں اپنے ابتدائی دلائل پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ صدر ٹرمپ کا قصور بالکل واضح ہے۔ ایوانِ نمائندگان کے مواخذے کے ایک منیجر ایڈم شیف کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے روس کے ساتھ محاذ آرائی کے شکار کلیدی شراکت دار یوکرین کی کروڑوں ڈالر کی امریکی امداد روک دی، تاکہ ان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کیلئے غیر ملکی مدد حاصل کی جا سکے۔ با الفاظ دیگر انہوں نے دھوکہ دینے کیلئے ایسا کیا۔
بقول ایڈم شیف، یوں، انہوں نے اپنے ان ریاستی اختیارات کا استعمال کیا جو صرف انہیں حاصل ہیں اور ان کے کسی سیاسی حریف کو حاصل نہیں، تاکہ صدارتی انتخاب میں وہ اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔
ڈیموکریٹک ارکان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں مزید ثبوت فراہم کیے جا سکتے تھے، لیکن منگل کے روز وہ سینیٹ میں اکثریتی رہنما مچ میکانل کو مواخذے کی سماعت کے دوران گواہان کی طلبی پر راضی نہ کر سکے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر چک شومر کا کہنا تھا کہ سب سے پہلی بات جو امریکی لوگوں نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت کے دوران دیکھی، وہ یہ تھی کہ رپبلکن سینیٹرز نے متعلقہ شہادتوں کے ساتھ منصفانہ ٹرائل کے خلاف ووٹ دیا۔ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت اس حالت میں شروع ہوئی ہے کہ اس پر غیر منصفانہ پن کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
مچ میکانل کا کہنا تھا کہ جب تک ابتدائی دلائل مکمل نہیں کر لیے جاتے، گواہان کو طلب کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، اس بات کا امکان ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کے آگے سر جھکا دیں گے جو چاہتے ہیں کہ گواہان کو طلب کیا جائے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ڈیرل ویسٹ کا کہنا ہے کہ اگر یہ ٹرائل جعلی محسوس ہوا تو یہ عوامی آرا کے حوالے سے برا ثابت ہو گا اور اس سے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ان کی پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہذا، وہ چاہتے ہیں کہ یہ ٹرائل کسی طور حقیقی دکھائی دے جس میں دونوں جانب سے ابتدائی بیانات دیے جائیں اور سینیٹر کو سوال پوچھنے کا موقع میسر ہو۔ لیکن، حقیقتاً وہ یہ نہیں چاہتے کہ ٹرائل غیر معینہ مدت تک جاری رہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ٹرائل کے اختتام میں صدر ٹرمپ کو بری الذمہ قرار دیا جائے۔
یوں اگر مچ میکانل اپنا مؤقف تبدیل نہیں کرتے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا طے نہیں ہوتا تو یہ امریکہ کی تاریخ میں مواخذے کی پہلی سماعت ہو گی جو شہادتوں کو سنے بغیر کی جائے گی۔