تیونس میں حزبِ ِ اختلاف کے سیاستدان چوکری بلائد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں شدید سیاسی اور مذہبی اختلافات کُھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ شمالی افریقہ کا یہ ملک جسے کبھی عرب جمہوریت کا ماڈل سمجھا جاتا تھا، اب آگے بڑھنے کی جدو جہد میں مصروف ہے ۔
گذشتہ جمعہ کو حزبِ اختلاف کے سیاستدان چوکری بلائد کے جنازے میں تیونس کے ہزاروں لوگ شریک ہوئے ۔ بہت سے لوگوں نے ان کی موت کے لیے اسلام پسند اناحدا پارٹی کو ذمے دار ٹھہرایا۔
مرید حبید نے اپنے جسم پر تیونس کاجھنڈا لپیٹ رکھا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ 2011 کا انقلاب غلط راستے پر پڑ گیا ہے معلوم نہیں ملک کہاں جا رہا ہے ۔
تیونس یونیورسٹی کے پروفیسر حمدی ردیسی کہتے ہیں کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر لوگ اناحدا سے تنگ آ گئے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ پارٹی بہت مقبول تھی لیکن یہ اپنے وعدے پورے نہیں کر سکی ہے۔ ’’ اناحدا اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہے ۔ اس کی اخلاقی اقدار ختم ہو چکی ہیں ۔ اناحدا اقتصادی حالت بہتر نہیں کر سکی۔ اس نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے ۔ لہٰذا آج اناحدا سیاسی طور پر کمزور ہو گئی ہے۔‘‘
بنیادی شہری سہولتوں کی حالت خراب ہو گئی ہے ۔ عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا ہے۔ اس میں سیکولر سیاست دانوں اور فنکاروں کے خلاف کٹڑ اسلام پسندوں کے حملے شامل ہیں ۔
دو سال قبل تیونس کے لوگوں نے متحد ہو کر آمریت کا تختہ الٹا تھا۔ آج ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے ۔ بعض لوگوں کو ، جیسے ٹیکسی ڈرائیور فعود قدیمی کو پرانا زمانہ یاد آتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ پرانی حکومت کے زمانے میں خوش تھے ۔ اس زمانے میں سیکورٹی تھی، بہت سے ٹورسٹ آتے تھے اور سب کو کام ملتا تھا ۔ زندگی آرام سے گذر رہی تھی ۔‘‘
اناحدا اور اس کے حامی کہتے ہیں کہ ان پر بلائد کی موت کا الزام لگانا غلط ہے اور تیونس میں انقلاب کے بعد جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ ان کے ذمے دار نہیں ہیں ۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بیرونی قوتیں تیونس کے انقلاب کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔
انگلش ٹیچر فتح اوسلطی تیونس میں ہفتے کے روز اناحدا کی حمایت میں ہونے والے جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا’’ہمارے خیال میں اناحدا بہت اچھی پارٹی ہے۔ اس نے بہت کام کیا ہے ۔ ایک طویل عرصے تک اس نے دشواریاں اور مصائب برداشت کیے ہیں ۔ اس کے ارکان کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔ کچھ لوگ ملک بدر ہو گئے ۔ انہیں ا ن کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ اور اب تیونس میں ان کی حکومت قائم ہے ۔ جبر و ظلم اور آمریت کے خلاف انھوں نے جو جدو جہد کی، اس کے صلے کے طور پر انہیں حکومت ملی ہے۔‘‘
تیونس کی سڑکوں پر لوگوں میں جو اختلاف نظر آتا ہے، اس کا عکس حکومت میں بھی موجود ہے ۔ وزیرِ اعظم حمادی جبالی نے دھمکی دی ہے کہ اگر کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ایک نئی غیر سیاسی کابینہ نامزد نہ کی گئی، تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کی اپنی اناحدا پارٹی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے ۔
نیشنل اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر اناحدا کی مہرضیا لابیدی چاہتی ہیں کہ مخلوط حکومت مصالحت کی کوئی صورت نکالے ۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ملک میں پائی جانے والے کشیدگی پریشان کن ہے ۔
’’تیونس میں پھوٹ پڑ گئی ہے، لیکن اختلافات صرف مذہبی نہیں ۔ میرے خیال میں ہمارا واسطہ دو انتہا پسند گروپوں سے ہے ۔ ایک طرف سیکولر انتہا پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تیونس کو مذہب سے کوئی واسطہ نہ رہے۔ اس گروپ کے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور دوسری طرف مذہبی لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ہے جو چاہتا ہے کہ تیونس میں سب لوگ صرف اسلام پر عمل کریں۔ لیکن میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ تیونس کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اعتدال پسند ہے ۔‘‘
لابیدی کہتی ہیں کہ ان لوگوں میں ہی تیونس کو مشترکہ راہ مل سکتی ہے ۔
لیکن فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ تیونس اپنی راہ کھو چکا ہے اور اسے یقین نہیں کہ بلائد کی موت کے بعد اگلا قدم کیا ہونا چاہیئے ۔
گذشتہ جمعہ کو حزبِ اختلاف کے سیاستدان چوکری بلائد کے جنازے میں تیونس کے ہزاروں لوگ شریک ہوئے ۔ بہت سے لوگوں نے ان کی موت کے لیے اسلام پسند اناحدا پارٹی کو ذمے دار ٹھہرایا۔
مرید حبید نے اپنے جسم پر تیونس کاجھنڈا لپیٹ رکھا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ 2011 کا انقلاب غلط راستے پر پڑ گیا ہے معلوم نہیں ملک کہاں جا رہا ہے ۔
تیونس یونیورسٹی کے پروفیسر حمدی ردیسی کہتے ہیں کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر لوگ اناحدا سے تنگ آ گئے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ پارٹی بہت مقبول تھی لیکن یہ اپنے وعدے پورے نہیں کر سکی ہے۔ ’’ اناحدا اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہے ۔ اس کی اخلاقی اقدار ختم ہو چکی ہیں ۔ اناحدا اقتصادی حالت بہتر نہیں کر سکی۔ اس نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے ۔ لہٰذا آج اناحدا سیاسی طور پر کمزور ہو گئی ہے۔‘‘
بنیادی شہری سہولتوں کی حالت خراب ہو گئی ہے ۔ عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا ہے۔ اس میں سیکولر سیاست دانوں اور فنکاروں کے خلاف کٹڑ اسلام پسندوں کے حملے شامل ہیں ۔
دو سال قبل تیونس کے لوگوں نے متحد ہو کر آمریت کا تختہ الٹا تھا۔ آج ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے ۔ بعض لوگوں کو ، جیسے ٹیکسی ڈرائیور فعود قدیمی کو پرانا زمانہ یاد آتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ پرانی حکومت کے زمانے میں خوش تھے ۔ اس زمانے میں سیکورٹی تھی، بہت سے ٹورسٹ آتے تھے اور سب کو کام ملتا تھا ۔ زندگی آرام سے گذر رہی تھی ۔‘‘
اناحدا اور اس کے حامی کہتے ہیں کہ ان پر بلائد کی موت کا الزام لگانا غلط ہے اور تیونس میں انقلاب کے بعد جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ ان کے ذمے دار نہیں ہیں ۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بیرونی قوتیں تیونس کے انقلاب کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔
انگلش ٹیچر فتح اوسلطی تیونس میں ہفتے کے روز اناحدا کی حمایت میں ہونے والے جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا’’ہمارے خیال میں اناحدا بہت اچھی پارٹی ہے۔ اس نے بہت کام کیا ہے ۔ ایک طویل عرصے تک اس نے دشواریاں اور مصائب برداشت کیے ہیں ۔ اس کے ارکان کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔ کچھ لوگ ملک بدر ہو گئے ۔ انہیں ا ن کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ اور اب تیونس میں ان کی حکومت قائم ہے ۔ جبر و ظلم اور آمریت کے خلاف انھوں نے جو جدو جہد کی، اس کے صلے کے طور پر انہیں حکومت ملی ہے۔‘‘
تیونس کی سڑکوں پر لوگوں میں جو اختلاف نظر آتا ہے، اس کا عکس حکومت میں بھی موجود ہے ۔ وزیرِ اعظم حمادی جبالی نے دھمکی دی ہے کہ اگر کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ایک نئی غیر سیاسی کابینہ نامزد نہ کی گئی، تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کی اپنی اناحدا پارٹی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے ۔
نیشنل اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر اناحدا کی مہرضیا لابیدی چاہتی ہیں کہ مخلوط حکومت مصالحت کی کوئی صورت نکالے ۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ملک میں پائی جانے والے کشیدگی پریشان کن ہے ۔
’’تیونس میں پھوٹ پڑ گئی ہے، لیکن اختلافات صرف مذہبی نہیں ۔ میرے خیال میں ہمارا واسطہ دو انتہا پسند گروپوں سے ہے ۔ ایک طرف سیکولر انتہا پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تیونس کو مذہب سے کوئی واسطہ نہ رہے۔ اس گروپ کے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور دوسری طرف مذہبی لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ہے جو چاہتا ہے کہ تیونس میں سب لوگ صرف اسلام پر عمل کریں۔ لیکن میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ تیونس کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اعتدال پسند ہے ۔‘‘
لابیدی کہتی ہیں کہ ان لوگوں میں ہی تیونس کو مشترکہ راہ مل سکتی ہے ۔
لیکن فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ تیونس اپنی راہ کھو چکا ہے اور اسے یقین نہیں کہ بلائد کی موت کے بعد اگلا قدم کیا ہونا چاہیئے ۔